300

مسلم لیگ (ن) اور پی ٹی آئی کے طرز سیاست کا موازنہ اور آئندہ انتخابات پر اس کا اثر۔

مسلم لیگ (ن) کی قیادت نے معروف امریکی ماہر نفسیات ابراہام ماسلو (1908تا 1970) کی تھیوری Hierarchy of Needs تو یقیناً نہیں پڑھی ہوگی، لیکن سیاسی طور پر دیکھیے تو وہ اس کی روح پر مکمل طور پر عمل پیرا معلوم ہوتی ہے۔ عمرانی تھیوریز ویسے بھی سماجی اور انسانی رویوں سے ہی اخذ و کشید کی جاتی ہیں۔ اس تھیوری کے ذریعے البتہ ہم بڑے واضح طور پر جان سکتے ہیں کہ مسلم لیگ (ن) کے انتخابات جیتنے کے سماجی عوامل کیا ہیں۔ غالب گمان ہے کہ حالات اگر یوں ہی رہے تو اگلے الیکشن میں بھی مسلم لیگ (ن) کی جیت یقینی ہے۔

ابراہام ماسلو کی اس تھیوری کے پہلے ورژن کے مطابق انسان کی بنیادی ضروریات پانچ ہیں جو ایک خاص ترتیب سے یکے بعد دیگرے ظاہر ہوتی ہیں۔ یہ ضروریات اور ان کی ترتیب درج ذیل ہے:

 

جسمانی ضروریات یعنی کھانا پینا وغیرہ اس کو ہم معاشی مسئلہ بھی کہ سکتے ہیں۔
تحفظ نفس کی ضرورت۔ 
محبت کی ضرورت۔ 
عزت نفسں کی ضرورت۔
اپنی ذات کی شناخت۔ 

ماسلو کے مطابق یہ ضروریات عام طور پر اسی ترتیب سے سامنے آتی ہیں۔ جب ایک ضرورت پوری ہو جاتی ہے تب دوسری ضرورت سر اٹھاتی ہے۔ کبھی البتہ یہ ترتیب بدل بھی جاتی ہے لیکن ایسا کسی عارضی عامل کی مداخلت کی وجہ سے ہوتا ہے، ورنہ عام حالات میں ان ضروریات کی ترتیب یہی رہتی ہے ۔ ماسلو کی اس تھیوری کو سوشیالوجی اور بشریات میں کافی مقبولیت حاصل ہے۔

سادہ لفظوں میں تھیوری کو بیان کیا جائے تو آدمی کی پہلی ضرورت اس کا پیٹ ہے۔ روٹی کی خاطر وہ جان بھی داؤ پر لگا دیتا ہے، روزی کی خاطر خطرناک پیشے اختیار کرتا ہے جس میں اس کی موت بھی واقع ہو جاتی ہے۔ معاش کی ضرورت جب پوری ہو جائے تو انسان کو اپنے تحفظ کی ضرورت کا احساس ہوتا ہے۔ یہ تحفظ بھی جب حاصل ہو جائے تو اس میں محبت کرنے اور چاہے جانے کی خواہش سر اٹھاتی ہے۔

یہاں بات محبت کی ہو رہی ہے، ہوس کی نہیں۔ ہوس بھی کبھی محبت کا روپ دھار لیتی ہے، لیکن ہوس عجلت پسند ہوتی ہے، جلد پوری ہو جاتی ہے۔ اس کے پورا ہوتے ہی محبت کا خمار اتر جاتا ہے۔ یہاں بات محبت کی ہو رہی ہے، جس میں چاہنے اور چاہے جانے کی مطالبہ پیدا ہوتا ہے اور یہ تب پیدا ہوتا ہے۔

جب انسان خود کو محفوظ تصور کرتا ہے۔ چناچہ لوگ عمومًا معاشی اور نفسی تحفظ حاصل کرنے کے بعد شادی کرنا پسند کرتے ہیں۔ یہ عمومی مشاہدہ ہے کہ شادی کے بعد اگر معاشی حالات خراب ہو جائیں تو محبت بھی رخصت ہو جاتی ہے، شادیاں بھی ٹوٹ جاتی ہیں۔ اگلے مرحلے میں جب محبت کی ضرورت جب پوری ہو چکی ہوتی ہے تو فرد میں اپنی عزتِ نفس کے تحفظ کا احساس بیدار ہوتا ہے۔

ہم دیکھتے ہیں کہ لوگ محبت پانے کے لیے اپنی عزت بھی گنوا دیتے ہیں۔ گویا عزت سے پہلے محبت چاہیے ہوتی ہے اور محبت کے بعد عزت نفس کا احساس پیدا ہوتا ہے۔ جو لوگ کسی کی محبت پانے کے لیے اپنی عزت قربان کرنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے، ان کی محبت کی ضرورت دراصل اور رشتوں ناتوں سے پوری ہو چکی ہوتی ہے۔ لیکن جب کسی شخص کو کسی رشتے سے محبت نہ ملی ہو، یا ادھوری محبتیں ملی ہوں، ان کی انا محبت کے حصول میں کبھی آڑے نہیں آتی۔

ایسے لوگ جن کی پہلی تینوں ضرورتیں پوری ہو جاتی ہیں، یعنی جو معاشی طور پر مستحکم یا قابل اطمینان حالت میں ہو جاتے ہیں، جان و مال کے تحفظ میں بھی مبتلا نہیں ہوتے اور محبت بھی ان کا مسئلہ نہیں رہ جاتی، تو وہ مساوی حقوق کی طلب کرنے لگتے ہیں کیونکہ عزت نفس کا پہلا مطالبہ اپنے حقوق کا تحفظ ہے۔ پھر جب چاروں ضرورتیں پوری ہو جاتی ہیں تو فرد میں ذاتی منفرد شناخت منوانے کی خواہش پیدا ہوتی ہے۔

چنانچہ آپ دیکھتے ہیں کہ فارغ البال اقوام سمندروں کی تہوں میں غوطے لگاتی ہیں، آسمان کے فضاؤں اور خلاؤں میں چکر لگاتی ہیں، بلند و بالا پہاڑوں کی چوٹیوں کو قدموں تلے دیکھنے کے لیے جان جوکھوں میں ڈال دیتے ہیں، شیر چیتوں اورچیونٹیوں کے بل میں گھس کر پر ڈاکیومنٹریز بناتی ہیں، مگر مچھوں کو ہاتھوں سے جا پکڑتی ہیں، نئی سے نئی چیزیں دریافت کرتی ہیں، لیبارٹریوں میں نئے نئے انکشافات کرتے ہیں۔

فنون لطیفہ میں نت نئی جہتیں اور شاہکار پیش کرتی ہیں، تاہم، ان کی بیشتر سرگرمیاں ہمارے روزی روٹی کے گھن چکر میں مبتلا لوگوں کے لیے حماقت اور بے کار ایڈونچر کے سوا اور کچھ نہیں ہوتیں۔ وجہ یہ ہے کہ ہمارے لوگوں کے لیے خود شناختی کی منزل، جو ماسلو کی تھیوری میں پانچویں نمبر پر آتی ہے، ابھی بہت دور ہے۔

اس تھیوری کے مطابق ن لیگ اور پی ٹی آئی دونوں کا منشور اصلا یک نکاتی بنتا ہے۔ ن لیگ کا عملی منشور اس تھیوری کا پہلا نکتہ یعنی معاش کا مسئلہ ہے اور پی ٹی آئی کا نظریاتی منشور اس تھیوری کا چوتھا نکتہ یعنی عزت نفس کا تحفظ ہے، جس کی عملی صورت انصاف کے نظام کا قیام ہے۔

پاکستانی سماج کی حقیقی صورت حال یہ ہے کہ عوام کی غالب اکثریت کی پہلی ضرورت یعنی معاش کا حصول اور اس کے وسائل کی دستیابی کے مسائل ہی حل نہیں ہو سکے تو وہاں پی ٹی آئی کے نظام انصاف کے قیام کے منشور سے کتنے لوگ کس حد تک متاثر ہو سکتے ہیں، پھر جب کہ انصاف کا ایسا نظام کے پی کے میں بھی نظر نہ آتا تو کس برتے پر لوگ پی ٹی آئی کو ووٹ دیں گے۔ بھوک اور اس کا خوف ہمارے عوام کے رگ و پے میں دوڑتے ہیں۔

ہم دیکھتے ہیں کہ کھانے کی عام دعوتوں میں اور سیاسی پارٹیوں کے جلسوں میں کھانا کھلنے پر ہمارے عوام کس طرح ندیدوں کی طرح کھانے پر ٹوٹ پڑتے ہیں، سیاسی نظریہ کوئی بھی ہو، اس معاملے میں سب ایک پیج پر ہیں۔ احمد پور شرقیہ میں آئل ٹینکٹر گرا تو مفت تیل لینے کے جوش میں سینکڑوں لوگ جل کر ہلاک ہو گئے۔

اس کے فورا بعد ہی ایک اور جگہ ایک اور آئل ٹینکر گرا اور لوگ پھر اسی طرح مفت تیل کے حصول میں جان داؤ پر لگائے ہوئے تھے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے لوگوں اصل مسئلہ پیٹ اور اس کے لوازمات ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے عوام میں اپنی دیگر ضروریات کا احساس اور ان کی تکمیل کی خواہش سرِ فہرست نہیں ہے۔

ن لیگ خالص روایتی پاکستانی مزاج کی حامل اور اس کی عکاس ہے۔ وہ اپنے عوام کا مزاج خوب بھانپتے ہیں۔ اس لیے روزی روٹی کے مسائل کو اس نے اپنی اولین بلکہ واحد ترجیح بنا رکھا ہے۔ پیپلز پارٹی نے بھی روٹی، کپڑا اور مکان کے نعرے میں سیاسی طور پر اسی ضرورت کا انتخاب کیا ہوا ہے، لیکن وہ عوام سے اپنی حد سے بڑھی ہوئی بے حسی کی وجہ سے اپنے اس منشور پر بقدرِ ضرورت بھی عمل کر کے دکھا نہیں سکتی، اس لیے سوائے صوبہ سندھ کے ملک کے دیگر حصوں میں وہ اپنا ووٹ بینک کھوتی جا رہی ہے۔

سندھ میں اس کا ووٹ بینک اس کی تقدیر میں عوام نے خود لکھا دیا ہے۔ اب چاہے وہ کچھ بھی کرے یا کچھ نہ بھی کرے، یہ ووٹ بینک متاثر ہونے والا نہیں تو پھر کچھ کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ لیکن پنجاب اتنا بھی وفادار نہیں کہ بھوکے پیٹ کسی کے گن گائے۔ مسلم لیگ (ن) عوام کی معاشی ضروریات کی تکمیل میں کم از کم اس حد تک لگی رہتی ہے کہ اس کے ووٹرز کی بڑی تعداد ان سے مطمئن ہو جاتی ہے۔ البتہ، جو ووٹر ایک روٹی سے رام ہو جاتا ہے ن لیگ اسے دو روٹیاں دینے کی حماقت نہیں کرتی۔

آپ ن لیگ کے کاموں کی فہرست دیکھیں، جسے ان کے بڑے اور چھوٹے اپنی تقریروں اور بیانات میں مسلسل دہراتے رہتے ہیں۔ یہ تمام کے تمام کام ابراہام ماسلو کی ضروریات کی فہرست میں دی گئی پہلی ضرورت، یعنی کھانے پینے، روزی روٹی کی ضرورت کے گرد گھومتے ہیں۔ سستی روٹی جیسے پراجیکٹ کی کوتاہ نظری پر ماہرینِ معاشیات چاہے کتنا ہی سر پیٹ لیں، ن لیگ کی دور رس نظر دیکھ لیتی ہے کہ ایک عام ووٹر کا ووٹ اس طرح کی چیزوں سے بہرحال پکا ہو جاتا ہے۔

اسی طرح پانی بجلی کی فراہمی، سڑکیں، پُل، بس اور ٹرین بھی روزی روٹی کی اِسی بنیادی ضرورت میں سہولت پیدا کرنے کے اقدامات ہیں۔ مسلم لیگ (ن) انہیں مسائل تک رہتی ہے اور اس سے آگے نہیں بڑھتی، نہ عوام کو آگے کا کوئی سجھاؤ دیتی ہے۔ ن لیگ ان پراجیکٹس پر بلا وجہ اربوں روپیہ نہیں لگا دیتی۔ یہ اپنے عوام کی پہلی ضرورت اور ان کے مزاج سے پوری طرح واقف ہیں اس لیے ان کا تیر خطا نہیں جاتا۔

ملک کو چین کے حوالے کیا جا رہا ہے۔ اس تاریخی اقدام بے شمار سماجی، ثقافتی اور مذہبی اثرات پر اہل دانش بات کر رہے ہیں۔ لیکن مسلم لیگ (ن) اس کے صرف ایک پہلو پر بات کرتی ہے کہ ملک کی معاشی حالت بہتر ہو جائے گی، لوگوں کو روزگار ملے گا۔ یہ دو جملے اہل دانش کی ہر بات پر بھاری ہیں، یہی ہو کر رہے گا۔ وژن جس چڑیا کا نام ہے وہ یہاں آس پاس بھی کہیں پر نہیں مار سکتی۔

عقل و خرد والے چاہے عوام کی عقل پر ماتم کناں رہیں کہ ملک کی حقیقی ضروریات اور اصل مفاد کے طے کرنے میں مسلم لیگ (ن)کے اقدامات غلط ترجیحات پر اٹھائے جاتے ہیں، حکومت کے کرنے کے اور بھی کام ہوتے ہیں، انصاف اور میرٹ پر فیصلے اصل اہمیت کی چیز ہے۔ دولت کی منصفانہ تقسیم کا نظام درست ہونا چاہیے، اس سے بڑی حد تک روزی روٹی کے مسائل حل ہوتے ہیں۔

ٹیکس کی قومی آمدنی کے آمد و خرچ کا نظام شفاف بنایا جائے تاکہ حکومت عوام کے سامنے جواب دہ ہو، بینکوں سے کوئی کروڑ پتی قرض معاف کروانے کی کوشش کرے تو عوام اسے عدالت میں چیلنج کر سکیں اور جج بلا خوف و خطر انصاف کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے فیصلے دے سکیں، پولیس کا نظام عوام کی سہولت اور تحفظ کے لیے ہو نہ کہ طاقت ور کے ذریعے عوام کو ہراساں کرنے کے لیے۔ عوام کو لاکھ سمجھایا جائے کہ اسی مسلم لیگ (ن) کا کوئی لینڈ مافیا تمہاری زمین پر قبضہ کر لے، اسی کا کوئی وڈیرہ تمہاری عزت پر ہاتھ ڈال دے تو پولیس اور عدالت کوئی بھی تمہاری داد رسی نہیں کرے گی، لیکن روزی روٹی کے لیے پریشان ایک غریب، مڈل کلاس کا ایک فرد آپ کی بات پر کان نہیں دھرے گا۔

وہ آپ کی معقول باتوں کا انکار بھی نہیں کر سکے گا لیکن روٹی اور روٹی پیدا کرنے والے وسائل کے پراجیکٹس کے انعقاد اور تکمیل کے اشہارات دیکھ کر، اور مزید ان جیسے پراجیکٹس کے وعدوں کا سن کر، اور اپنے بیٹے کے لیے ملازمت کو میرٹ کی بجائے مسلم لیگ (ن) کے کسی وزیر مشیر کی سفارش کی یقین دہانی پر وہ بھاگ کھڑا ہو گا اور آپ کی ساری کی ساری منطق دھری کی دھری رہ جائے گی۔

تاجر برادری اسی معاش کی وجہ سے ن لیگ کے ساتھ ہے۔ ن لیگ کے تمام اقدامات تاجر برادری کا معاشی مفاد مد نظر رکھ کر بنائے جاتے ہیں۔ نظام تاجر برادری سے ٹیکس وصول نہیں کرتا، مصنوعی مہنگائی، ذخیرہ اندوزی ، ملاوٹ وغیرہ کسی غیر قانونی کام پر ان کچھ نہیں کہتا۔ چنانچہ تاجر برادری اپنے معاشی مفادات کے تحفظ کے مسلم لیگ (ن) کی حاشیہ نشین بنی رہتی ہے۔

ایک اہم بات یہ ہے کہ ابراہام ماسلو کی دی گئی فہرست کی اس پہلی ضرورت پر حکومت کا سب سے کم خرچ آتا ہے۔ دیگر ضروریات جیسے تعلیم، صحت انصاف وغیرہ پر خرچ بھی زیادہ آتا ہے، وصولی بھی کچھ نہیں، وہ معاملات پیچیدہ بھی زیادہ ہیں اور ان کے اصلاح میں وقت بھی لگتا ہے۔ ان دیگر ضروریات پر خرچ کرنے سے بچنے کے لیے مسلم لیگ (ن) اگلا اہتمام یہ کرتی ہے کہ عوام کو انہی ضرورت تک محدود بھی رکھتی ہے ۔ یعنی وہ ان کی پہلی ضرورت بھی اس طرح پوری نہیں کرتی کہ اگلا مطالبہ اٹھ کھڑا ہو۔

مسلم لیگ (ن) کو تجربہ ہو چکا ہے کہ پیٹ بھرے نوجوانون کو اپنی طرف مائل کرنے کے لیے لیپ ٹاپ جیسی مہنگی سکیم پر اربوں روپے خرچ کرتے پڑ رہے ہیں۔ نوجوان طبقہ عمران خان کی زور دار مہم کی وجہ سے پہلی بار بڑی تعداد میں ووٹ دینے پر آمادہ ہوا تھا۔ ان کا ووٹ مسلم لیگ (ن) کو بہت مہنگا خریدنا پڑا۔

لیکن سچ تو یہ ہے کہ لیپ ٹاپ لینے کے باوجود نواجوانوں کی غالب اکثریت نے ووٹ پی ٹی آئی کو ہی ڈالے تھے۔ نوجوان ووٹر نہ ہوتے اور حالات پہلے جیسے ہوتے تو اتنے پیسوں میں تو مسلم لیگ (ن) تین بار الیکشن جیت سکتی تھی۔ اسی لیے آپ دیکھیے کہ مسلم لیگ (ن) میں تعلیم سے ایک گونا بیر سا پایا جاتا ہے۔ تعلیم ان کی ترجیحات میں ڈھونڈنے سے بھی نظر ںہیں آتی۔ مسلم لیگ (ن) کے اس حالیہ دور میں کتنی یورنیورسٹیز بنیں اور تعلیم کے بجٹ میں کتنا اضافہ ہوا سب کو معلوم ہے۔

شہروں میں معیارِ زندگی بلند ہونے کی رفتار مسلم لیگ (ن) روک نہیں سکتی۔ اس لیے وہ ان کے معیار زندگی کے مطابق بقدر ضرورت وسائل پیدا کرتی جاتی ہے۔ لیکن غور کیجیے تو یہ سب بھی وہی روزی روٹی یعنی معاش کا ہی ایجنڈا ہے۔ مسلم لیگ (ن) عوام کو حتی المقدور اسی پہلی ضرورت کے دائرے میں گھماتے رہتے ہیں اور لوگ ایک روٹی سے دو روٹی اور اچھے معاش سے بہتر معاش کے حصول کی امید اور وعدوں پر ہر بار اپنا ووٹ ان کے لیے قربان کرتے چلے جاتے ہیں۔

بھوک کی نفسیات جتنی گہری ہوتی ہے، مسلم لیگ (ن) کے لیے جمایت میں اسی قدر اضافہ ہوتا ہے۔ ایسا بھوکا شخص اگر خوشحال بھی ہو جائے تب بھی بھوک کا خوف اس کی نفسیات سے نکل نہیں پاتا۔ اس لیے وہ مسلم لیگ (ن) کا حامی بنا رہتا ہے۔ بھوک کی نفسیات اور ن لیگ کی کامیابی میں راست تناسب ہے۔

اس طرح مسلم لیگ (ن) عوام کے شعور میں اضافہ ہونے نہیں دیتی۔ یہ بے شعوری کہ حکومت کا کام محض عوام کا کھانا پانی اور دیگر معاشی ضروریات پورا کرنا ہے، عوام کے بیشتر طبقے کو حیوانیت کی سطح پر لے آتی ہے۔ اعلی شعور پیدا ہی نہیں ہو پاتا، ہو بھی جائے تو رخصت ہو جاتا ہے اور عوام مواشی کا ریوڑ بن کر رہ جاتے ہیں جنھیں ان کی ضرورت اور معیار کا راتب دکھا کر اپنا وفادار بنائے رکھنا کوئی مشکل کام نہیں رہتا۔

احتساب، انصاف، عزت نفس کا تحفظ، صحت، تعلیم جیسی چیزیں بہت پیچھے چلی جاتی ہیں۔ عوام بے عزت ہو کر بھی نعرے مارتے ہیں اور اپنے روزی رساں کے گن گاتے ہیں۔ طائر لاہوتی یہ بے توقیر رزق کھا کھا کر پرواز میں کوتاہ اور بخوشی اسیر زنداں ہو جاتا ہے۔

ہم جانتے ہیں ملک میں نظام کو جان بوجھ کر ظالمانہ بنا کر رکھا گیا ہے۔ پولیس طاقت ور کی لونڈی ہے۔ کمزور کے لیے طاقت ور کا ڈنڈا ہے، جس کے خوف سے وہ انصاف کے حصول کے لیے دو قدم چلنے کی جرات نہیں کر سکتا۔ یہاں لوگ اپنا بیٹا کسی طاقت ور کے ہاتھوں مروانے کے بعد، اپنی بیٹیوں کی عزت بچانے کے لیے اسی طاقت ور سے صلح کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ پولیس کا نظام ایسا بنائے رکھنے سے ملک کے طاقت ور اور با اثر لوگوں کو یہ محرک دیا جاتا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے ساتھ رہو گے تو یہ ملک تمہاری جاگیر بنا دی جائے گی، جہاں چاہو ہاتھ ڈالو، کوئی تمہیں پوچھنے والا نہیں، جس کی چاہے جان لے لو، جو زمین پسند آئے قبضہ کر لو، جس کی چاہے عزت سے کھیل جاؤ، میرٹ کے پرخچے اڑا دو، گاؤں میں ہو تو اپنے مخالفین اور نافرمان کو کتوں سے بھنبھوڑ ڈالو، ان کی عورتوں کو برہنہ کر کے گاؤں کی گلیوں میں گھماؤ، شہروں میں ہو تو اپنے مخالفین کو کتوں کی بجائے پولیس کے ذریعے ڈاکو اور دہشت گرد قرار دے کر مروا دو، جعلی ادویات کا کاروبار کرو، جوئے اور نشے کے اڈے چلاؤ، تم اس پولیس کو تم اپنا پشت بان پاؤ گے۔

پولیس کو ایسا بنائے رکھنے کے لیے مسلم لیگ (ن) خصوصی اہتمام کرتی ہے۔ پولیس میں کوئی بھرتی مسلم لیگ (ن) کی آشیر باد کے بغیر نہیں ہو سکتی۔ عدالت میں تو کوئی بعد میں جائے گا، پولیس ہی سے لوگ نمٹ نہیں سکتے کہ عدالت میں جانے کی نوبت آئے۔ عدالت نے تفتیش اور کارروائی کا حکم آخر پولیس کو ہی دینا ہے اور پولیس نے وہ کرنا ہے جو مسلم لیگ (ن) کا غنڈہ چاہے گا۔

اس نظام کو ایسا بنائے رکھنے کا ایک اور فائدہ بھی مسلم لیگ (ن) کو اٹھاتی ہے، پولیس کی بربریت کا کوئی واقعہ اگر الیکٹرانک یا سوشل میڈیا پر رپورٹ ہو جائے، تو مسلم لیگ (ن) کے ادنٰی اور اعلٰی خادم فورا متحرک ہوتے ہیں، محکمہ جاتی کارروائی سے پہلے ہی ملزم کو معطل کر دیا جاتا ہے۔ یوں بجائے اس پر شرمندہ ہونے کے، کہ یہ نظام اتنا بے قابو کیوں ہے، مسلم لیگ (ن) پھر اپنی واہ واہ کروا لیتی ہے۔ لیکن حقیقت میں ہوتا کیا ہے؟ عوام کے ذہن سے جب یہ واقعہ محو ہو جاتا ہے تو معطل شدہ پولیس اہل کار واپس اپنی نوکری پر بحال ہو چکا ہوتا ہے۔

ایسا پولیس اہل کار پھر ان سیاست دانون اور ان کےحامیوں کی آنکھ کا تارا بن جاتا ہے جس سے مزید ‘خدمات’ لی جاتی ہیں۔ چنانچہ دسیوں مرتبہ قانون کی خلاف ورزی کرنے والے اہل کار مختلف عہدوں پر دوسروں سے زیادہ ترقی پاتے جاتے ہیں، اور اگر کبھی کسی چھوٹے اہل کار کی محکمہ جاتی ترقی رک بھی جائے تو اس کا بینک اکاؤنٹ اور عوام میں اس کا خوف دن بدن بڑھتا چلا جاتا ہے۔

پاکستان کے غریب عوام کو آپ جتنا بھی سمجھا لیں کہ پولیس، کچہری، عدالت وغیرہ کا یہ نظام جان بوجھ کر ایسا ظالمانہ بنا کر رکھا گیا ہے تاکہ طاقت ور کو فائدہ پہنچے۔ ان کو بتایا جائے کہ تم اس ظلم سے بچنے کے لیے بھی الٹا اسی ظالم ایم این اے، ایم پی اے اور وززیر کے در پر سجدہ ریز ہو جاتے ہو جنھوں نے یہ نظام بنایا ہے تاکہ وہ تمہاری داد رسی بھی تمہارے ووٹ کی قیمت پر کریں، لیکن یہ روٹی کے پیچھے بھاگتے عوام اپنا ووٹ ن لیگ کو ہی دیں گے۔ یہ معاملہ جبلت سے متعلق ہے، عقل والے چاہے جتنا زور لگا لےکے وہ جبلت کو شکست نہیں دے پائیں گے۔

مسلم لیگ (ن) ماڈل ٹاؤں سانحے میں قتل کیے جانے والوں کو چند لاکھوں کا معاوضہ تو دے سکتی ہے لیکن پولیس کو قرار واقعی سزا نہیں دے گی۔ وجہ یہی ہے کہ وہ مشقبل میں بھی اس سے اس طرح کے مزید کام لینا چاہیں گے تو سزا دے کر ان کی حوصلہ شکنی کیسے کریں۔ ادھر عوام کے بارے میں انہیں معلوم ہے کہ چند لاکھ لے کر وہ ایسے معاملات کو بھول جاتے ہیں یا خاموش ہو جاتے ہیں، بلکہ اکثر تو ن لیگ کے شکر گزار بھی ہو جاتے ہیں۔

ہر حادثہ کی مسلم لیگ (ن) نے قیمت لگا رکھی ہے۔ اپنے ہی بنائے ہوئے نظام کے ہاتھوں مظلومانہ طور پر مارے جانے والے یا متاثر ہونے والوں کو ن لیگ مالی معاوضہ تو دیتی ہے لیکن نظام کی اصلاح نہیں کرتی تاکہ لوگ ایک تو نظام کے ظلم سے بچنے کے لیے بھی مسلم لیگ (ن) کے محتاج رہیں اور دوسرا اسی نظام کے ذریعے اپنے مخالفین کو سبق سکھانے کی سہولت بھی دستیاب رہے۔

عمران خان کا انصاف کے قیام کا نعرہ ماسلو کی بیان کر دہ ترتیب کے لحاظ عزت نفس سے متعلق ہے جو چوتھے نمبر پر آتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عمران خان کو باوجود اپنی ذاتی کرشماتی شخصیت کے اپنی بات سمجھانے میں دو دھائیاں لگ گئیں۔ اتنی محنت کے باوجود بھی اس کے گرد وہی لوگ جمع ہو سکے جو پیٹ، تحفظ اور محبت کی تینوں ضرورتوں سے آگے اب ملک میں عزت نفس سے جینے کے حق مانگتے تھے۔ بد قسمتی مگر یہ ہوئی کہ منشور فی الحقیقت درست ہونے کے باوجود عمران خان کی احتجاجی بلکہ انتقامی سیاست اور بد اخلاقی نے نظام میں بہتری کی امید کی وہ کرن بجھا دی جس کے لیے نسبتا بہتر شعور رکھنے والا طبقہ اس کے ساتھ کھڑا ہوا تھا۔

اب اس طبقے کا ایک حصہ تو مایوس ہو کر الگ ہو بیٹھا ہو اور دیگر اس مسلسل منفی سیاست کی وجہ سے اسی بے شعوری کے مسافر بن گیے ہیں جس کی داعی ملک کی دیگر روایتی سیاسی جماعتیں ہیں۔ انصاف کے نظام کے قیام کا معاملہ نواز شریف کی مخالفت تک محدود ہو کر رہ گیا۔ کے پی کے میں پولیس کے نظام میں کچھ اصلاحات کی گئیں، لیکن معاملہ جب طاقت وروں سے پڑا جیسا کہ ہم نے بعض کیسز میں دیکھا تو کے پی کے کی پولیس نے بھی اسی رویے کا اظہار کیا جو باقی ملک کی پولیس کا حال ہے۔ انصاف یہاں بھی منشور کی حد تک رہ گیا اور ایک تبدیلی اور بہتری کی امید دم توڑ گئی۔

عمران خان کے لیے 2018 کے انتخابات جیتنا بہت آسان تھا اگر وہ کے پی کے میں مثالی نظام قائم کر کے دکھا دیتا اور انتخابات میں ضروری اصلاحات لانے میں کامیاب ہو جاتا۔ مگر اس نے انتقامی طرزِ سیاست کو چنا۔ اس ہنگام میں عمران خان انتخابی اصلاحات کو بھی نظر انداز کر گیا۔ اگلے انتخابات اگر اسی رواتی انداز میں ہوئے تو ن لیگ کو جیتنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ ایک تو اس کا روایتی ووت بینک مضبوط ہے دوسرے اسے روایتی انتخابات جیتنے کے تمام حربے آتے ہیں۔

مسلم لیگ (ن) اور دیگر سٹیس کو کی جماعتوں کے قائم کردہ اس چکر ویو کا توڑ بہت مشکل ہے۔ تعلیم اور شعور اس کا حل ہے، لیکن تعلیم سے ن لیگ کو ویسے ہی بیر ہے اور تعلیم سے حاصل ہونے والے ممکنہ شعور کو اس نے نوکری کے ساتھ باندھ رکھا ہے۔ بلکہ اس نے تو ٹیکسی سکیم کے لیے بھی بی اے کی شرط عائد کر رکھی تھی۔

اس سب کے باوجود جمہوریت کا تسلسل ہر صورت برقرار رہنا چاہیے۔ عوام کے مجرموں کا احتساب عوام ہی کو کرنا چاہیے اگر وہ باشعور ہوں، لیکن اگر ان کا شعور اس سطح پر نہیں پہنچا تو وہ اس کے مستحق ہیں ان پر ایسے ہی لوگ مسلط رہیں۔

عام انتخابات میں ضروری اصلاحات اگر ہو جائیں تو امید کی جا سکتی ہے کہ عوام بتدریج بالغ نظر ہوتے جائیں گے اور اپنے مسائل کا ادراک کرتے جائیں گے۔ جس سے ان کی بصیرت میں اضافہ ہوتا جائے گا اور اس وجہ سے سیاسی جماعتوں کو بھی اپنا رویہ درست کرنے پر مجبور ہونا پڑے گا۔

جمہوریت کا تسلسل ہی ہے جو عوام کو بتدریج باشعور بنانے کا عمل ہے۔ کوئی مسیحا آئے گا نہ عوام کا شعور جست لگا کر بالغ ہو سکتا ہے۔ یہ جتنی باشعور اقوام ہمیں نظر آتی ہیں وہ سب اسی بے شعوری سے گزر کر اور صدیوں ٹھوکریں کھانے کے بعد یہاں تک پہنچی ہیں۔ ضروری امر یہ ہے کہ شعور کا یہ سست سفر کوئی بے صبر یا طالع آزما معطل نہ کر دے۔

عوام جس لیڈر کے مستحق ہوتے ہیں اسے ہی چنتے ہیں۔ قسمت سے اگر عوام سے بہتر کوئی لیڈر آ بھی جائے تو عوام اس کو بھی چلنے نہیں دیتے۔ اس لیے عوام کو بہتر اور زیادہ باشعور بنانے کی کوشش کرنی چاہیے تاکہ وہ بہتر فیصلہ کر سکے۔ اس سب کے لیے جمہوری نظام کو ہر قیمت پر چلتے رہنا ضروری ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں