بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح ایک نفیس انسان، با اصول شخص اور دوراندیش سیاستدان تھے، برطانیہ میں حصول تعلیم اور انگریزوں کے ساتھ کام کرنے کی وجہ سے وہ گوروں کے طرز زندگی، مزاج اور اُن کے سیاسی اور کاروباری گور کھ د ھندوں سے بھی خوب واقف تھے۔ مہاتما گاندھی سمیت برصغیر کے تمام سیاسی رہنما اور انگریز ارباب اختیار محمد علی جناح کی سیاسی بصیرت اور دور اندیشی کے قائل تھے۔ قائد اعظم کو لندن شہر پسند تھا۔ وہ پہلی بار 1892 میں یہاں آئے۔ در اصل بانی پاکستان کے والد جناح پونجا کے برطانوی بزنس مین سر فریڈک لی کرافٹ سے کاروباری مراسم تھے جنہوں نے محمد علی جناح کو اپنی فرم گرا ہم شپنگ اینڈ ٹریڈنگ کمپنی میں اپر ینٹی شپ کے لئے لندن آنے کی دعوت دی اُس وقت قائد اعظم کی عمر16 سال تھی اور ان کی ایمی بائی سے شادی کو چند ہی مہینے ہوئے تھے۔ لندن پہنچ کر محمد علی جناح نے کاروباری امور کو سیکھنے اور سمجھنے کی بجائے تعلیم کے حصول کو ترجیح دی۔ لنکز اِن میں تقریباً 4 برس قانون کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد وہ بیرسٹر بنے اورممبئی جاکر پریکٹس کا آغاز کیا جہاں وہ پہلے مسلمان بیرسٹر تھے جوایڈ ووکیٹ جنرل کے عہدے پر بھی فائز ہوئے۔ طالب علمی کے زمانے میں محمد علی جناح نے لندن میں بہت مصروف وقت گزارا وہ برٹش لبر لزم سے بہت متاثر ہوئے،اس دوران انہیں دادا بھائی نائروجی اور فیروز شاہ مہتا سے بھی ملاقاتوں کا موقع میسر آیا۔ نائروجی برطانوی پارلیمنٹ (ہاؤس آف کامنز) کے پہلے انڈین ممبر بنے تو انکی پہلی تقریر کو سننے کے لئے محمد علی جناح پارلیمنٹ کی وزیٹر گیلری میں موجود تھے۔ قائد اعظم ایک خوشحال تاجر گھرانے سے تعلق رکھتے تھے، خوش لباسی اُن کی شخصیت کا ایک اہم حوالہ تھا، وہ انگلش لباس اور خاص طور پر سوٹ اور ٹائی پہننا پسند کرتے تھے۔ بتایا جاتاہے کہ اُن کے پاس د و سو سے زیادہ سوٹ تھے وہ سوٹ کے ساتھ سلک ٹائی پہننے کو ترجیح دیتے تھے اور ایک ٹائی کو دوبارہ استعمال میں نہیں لاتے تھے۔ آخری عمر میں انہوں نے شیروانی اور قراقلی ٹوپی بھی پہننا شروع کردی تھی بعد ازاں یہ قراقلی ٹوپی جناح کیپ کے نام سے مشہور ہوئی۔ لندن کیSAVILEROW سٹریٹ میں HENRY POOLE کے نام سے اس انگریز درز ی (ٹیلر) کی دکان آج بھی موجود ہے جہاں سے بانی پاکستان اپنے سوٹ سلواتے اورریشمی ٹائیاں خریدتے تھے بلکہ وہ رجسٹر بھی یہاں محفوظ ہے جس میں محمدعلی خان کے نام کا ایک گاہک (کسٹمر) کے طور پر اندراج کیا گیا تھا۔ اس ٹیلر شاپ کے کسٹمرز میں سابق برطانوی وزیر اعظم سر ونسٹن چرچل سے لے کر بہت سی نامور شخصیات اور امرا کے نام شامل ہیں۔ بہت سے لوگوں کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ جناح صاحب اداکاری میں بھی دلچسپی رکھتے تھے۔ لندن میں قیام کے دوران انہوں نے مشہور ڈرامے رومیو جیولیٹ کے لئے آڈیشن دیا تو انہیں رومیو کے کردار کے لئے منتخب کر لیا گیا مگر اُن کے والدپونجا جناح نے انہیں ڈرامے میں کام کرنے کی اجازت نہ دی کیونکہ وہ چاہتے تھے کہ ان کا بیٹا صرف اپنی تعلیم پر توجہ مرکوز رکھے۔ لندن میں قائد اعظم کے بہت سے تاریخی حوالے آج بھی پاکستانیوں کے لئے بہت اہمیت اور کشش رکھتے ہیں۔ لنکنزاِن میں محمد علی جناح کی ایک شاندار تصویر اور یہاں کی لائبریری میں اُن کا ایک مجسمہ موجود ہے۔ قانون کی اس منفرد درسگاہ میں بانی پاکستان کے وہ خطوط بھی ریکارڈ میں رکھے گئے ہیں جو انہوں نے اپنے اس تعلیمی ادارے کے نام لکھے تھے ان میں ایک ایسا خط بھی شامل ہے جس میں انہوں نے اپنا نام محمد علی جناح بھائی سے بدل کر صرف محمد علی جناح درج کرنے کی گزارش کی تھی۔
قائد اعظم 4بار لندن آئے پہلی بار وہ 1893 سے 896 1تک تعلیم کے حصول کے لئے یہاں مقیم رہے اس دوران اُن کی رہائش مختلف جگہوں پر رہی لیکن انہوں نے زیا دہ وقت 35 رسل روڈ کنیز نگٹن میں قیام کیا۔ اس عمارت کے باہر آج بھی بانی پاکستان کی رہائش کے حوالے سے یادگاری تختی لگی ہوئی ہے۔ طالب علمی کے زمانے میں محمد علی جناح برٹش میوزیم کے ریڈنگ روم میں وقت گزارنے کے علاوہ ہائیڈ پارک جایا کرتے تھے۔ وہ کئی بار اپنے دوستوں کو ملنے کے لئے آکسفورڈ بھی جاتے تھے انہیں لندن میں تھیٹر دیکھنے کابھی شوق تھا اور وہ دادا بھائی نیروجی سے ملاقات کے لئے برطانوی پارلیمنٹ میں بھی آتے جاتے رہتے تھے۔ اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد محمد علی جناح 1913 اور 1914ء میں بھی کچھ ہفتوں کے لئے لندن آئے۔ آخری بار وہ 1930 میں برطانیہ آئے اور انہوں نے تقریبا (4) برس لندن میں قیام کیا۔ محمد علی جناح پہلی بار بہت چھوٹی عمر میں لندن آئے جب وہ اس شہر میں آئے تو بالکل اکیلے تھے یہاں ان کی مصروفیات پر نظر رکھنے یا روکنے ٹوکنے والا بھی کوئی نہیں تھا، نوجوان محمد علی جناح نے برطانیہ میں اپنی تمام تر توجہ پڑھائی پر مرکوز رکھی۔ وہ اپنی دھن کے پکے اور مضبوط قوتِ ارادی رکھنے والے انسان تھے۔ انہوں نے برطانوی معاشرے کی بہت سی اچھی چیزوں کا بغور مشاہدہ کیا اس ملک کے نظم و ضبط اور اور اصول پسندی نے بھی انہیں بہت متاثر کیا۔ ہندوستان پر انگریزوں کے تسلط کی اصل حقیقت کا اندازہ انہیں لندن میں رہ کر ہوا۔ بانی پاکستان کی دور اندیشی اور بصیرت نے انہیں پر صغیر کے مسلمانوں کے لئے الگ ملک کی تحریک اور آزادی کی جدوجہد کی قیادت پر آمادہ کیا۔ 1998 میں جمیل دہلوی نے جناح کے نام سے ایک فلم بنائی تھی اس فلم کا سکرپٹ پاکستان کے نامور دانشور اور برطانیہ میں پاکستانی ہائی کمشنر اکبر ایس احمد نے لکھا۔ اس فلم کے ذریعے بانی پاکستان کی شخصیت کے مختلف حوالوں اور سیاسی جدوجہد کو بہت عمدہ اور شاندار انداز میں اجاگر کیا گیا۔ اب تو لندن اور برطانیہ کے دیگر شہروں میں کھانے پینے کی حلال اشیا با آسانی دستیاب ہیں لیکن آج سے سوا سو سال پہلے جب بانی پاکستان لندن میں مقیم رہے اس وقت یہاں کھانے پینے کی حلال اشیا کی دستیابی کا کوئی امکان ہی نہیں تھا۔ اسی طرح بر صغیر کے عظیم رہنما سر سید احد خان 1869 میں جب لندن آئے اور تقریبا17 ماہ اس شہر میں قیام کیا تو ان کو بھی حلال کھانے کا مسئلہ درپیش رہا ہو گا۔ بہت سے غیر مسلم اور انگریز مورخین نے محمد علی جناح کے لندن میں قیام کے دوران اُن کے کھانے پینے کے معمولات کے بارے میں کئی متنازع باتیں لکھی ہیں۔قائد اعظم لندن میں کیاکھاتے اور پیتے تھے؟ یہ ایک الگ موضوع ہے۔ لنگنز اِن کی تعلیم، برطانوی پارلیمینٹ اور انگریزی معاشرے کے بارے میں ان کے مشاہدات نے اُن کی شخصیت پر جو اثر ڈالا اس کے بارے میں بہت سے تجزیہ نگاروں اور تاریخ دانوں نے خامہ فرسائی کی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ محمد علی جناح نے اپنی قوم کو اتحاد،تنظیم اور یقین محکم یعنی یونٹی، ڈسپلن اورفیتھ کا جو درس دیا تھا وہ انہوں نے برطانیہ میں رہ کر انگریزوں کی نفسیات کے مشاہدے کے بعدبرصغیر کے مسلمانوں کے لئے اخذ کیا تھا۔ قیام پاکستان کے بعد استحکام پاکستان کے لئے بھی ہماری قوم اگر ان تین سنہری اصولوں کو اپنا لیتی تو ہمارا ملک ترقی پذیر اور پسماندہ ہونے کی بجائے ترقی یافتہ اور خوشحال ہوتا۔ محمدعلی جناح کی مدبرانہ اور قائدانہ اہلیت کا اس لئے بھی ایک زمانہ معترف ہے کہ قائداعظم ایک با اصول سیاستدان تھے اُن کے قول وعمل میں تضاد نہیں تھا وہ اپنی عام زندگی میں بھی ڈسپلن کو ملحوظ خاطر رکھتے تھے۔ بانی پاکستان اگر ہمارے آج کے سیاستدانوں کی طرح بے اصول، مفاد پرست اور منافق ہوتے تو ہندوستان کی آزادی کے بعد مسلمانوں کے لئے ایک الگ ملک کے قیام کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہ ہو سکتا۔ محمد علی جناح اگر لندن نہ آتے اور انہیں یہاں تعلیم کے حصول اور انگریزوں کے طرز عمل کو قریب سے دیکھنے کا موقع نہ ملتا تو شاید وہ بر صغیر کے مسلمانوں کے لئے علیحدہ وطن کے حصول کی ضرورت کو محسوس نہ کرتے اسی لئے تو اُن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ”یوں دی ہمیں آزادی کہ دنیا ہوئی حیران، اے قائد اعظم ترا احسان ہے احسان“۔
مجھے یاد ہے کہ ایک نامور صحافی سہیل وڑائچ نے لندن میں ایک تقریب کے دوران جذباتی ہو کر اوورسیز پاکستانیوں سے کہا کہ ”محمد علی جناح نے لندن سے ہندوستان جا کر برصغیر کے مسلمانوں کی قیادت کی تھی آج بھی ضرورت ہے کہ تارکین وطن ایک اور قائد اعظم کو پاکستان بھیج دیں جو ہماری قوم کی تقدیر بدل دے“۔ سہیل وڑائچ کو معلوم ہو گا کہ برٹش پاکستانیوں نے برطانوی پارلیمنٹ کا تربیت یافتہ ایک”قائد اعظم“پاکستان بھیجا تھا جس نے دوبار گورنر کے عہدے پر فائز رہ کر صرف اپنا رانجھا راضی کرنے پر اکتفا کیاتمام لوگ اُن کے طرز سیاست کو دیکھ کر حیران ہوتے تھے کہ برطانوی پارلیمنٹ کا رکن رہنے والا شخص پاکستان کے سیاستدانوں کے نقش قدم پر کیسے چل سکتا ہے؟ زندگی اور موت کا اختیار خالق کائنات کے پاس ہے لیکن پھر بھی یہ بات بار بار کہی جاتی اور سننے میں آتی ہے کہ محمد علی جناح اگر قیام پاکستان کے بعد چندبرس اور زندہ رہتے تو وطن عزیز کے وسائل پر مفاد پرست سٹیبلشمنٹ اور منافق سیاستدانوں کوقابض ہونے کا موقع نہ ملتا۔ سوچنے اور غور کرنے کی بات یہ ہے کہ کیا محمد علی جناح اس ملک کو ایسا ہی بنانا چاہتے تھے جیسا کہ ہمارے ارباب اختیار نے اسے بنا کر رکھ دیا ہے۔ آزادی اور خودمختاری کے حصول سے زیادہ اس کی حفاظت کرنا مشکل ہوتاہے۔ ایک وقت تھا کہ ہندوستان کی مسلمان قوم کو ایک ملک کی ضرورت تھی اور آج پاکستان کو ایک قوم کی ضرورت ہے۔ قائد اعظم کو بھی معلوم تھا کہ قیام پاکستان سے زیادہ مشکل مرحلہ استحکام پاکستان کا ہوگا اس لئے انہوں نے اپنی قوم کو اتحاد، تنظیم اور یقین محکم پر قائم رہنے کی تلقین کی تھی۔ افسوس کہ آج ہماری پوری قوم بلکہ ہجوم اور اس کے نام نہاد لیڈر مجموعی طور پر نہ تو نظم و ضبط کے قائل ہیں نہ ہی متحد ہیں اور نہ ہی انہیں اپنی آزادی اور خود مختاری پر یقین محکم ہے۔ جو خوبصورت گلستان ہمیں میسر آیا تھا ہم نے اس کو اجاڑ کر رکھ دیا ہے اس کے پھول توڑ کر وہاں کانٹے اورببول اگا دیئے ہیں۔ قائد اعظم کے طفیل ہمیں جو آزادی ملی تھی ہم نے اس کی قدر نہیں کی ہمارے نام نہاد لیڈرزنے اپنی مملکت اور خود مختاری کا سودا کر دیا مجبور عوام بے بسی سے ایک دوسرے کا منہ تک رہے ہیں اور اُن کی خاموش نگاہیں استفسار کر رہی ہیں۔
؎ دیکھتا کیا ہے مرے منہ کی طرف
قائد اعظم کا پاکستان دیکھ
٭٭٭