37

گریفیٹی، نوشتہ  دیوار

میں جب بھی لندن اور اس کے مضافات میں سفر کرتا ہوں تو کئی بار سڑکوں کے کنارے پرویران عمارتوں اور دیواروں پر عجیب طرح کے نقش و نگاراور اشکال بنی ہوئی نظر آتی ہیں۔ اسی طرح سب وے سڑکوں اور شاہراہوں کو عبور کرنے کے لئے بنائے جانے والے پلوں (BRIDGES)  پربھی رنگ برنگی تحریریں اور پینٹنگز دکھائی دیتی ہیں۔ میں حیران ہوتا ہوں کہ یہ ”کارنامے“ کون اور کب انجام دیتا ہے اور اس قسم کے ”نوشتہ دیوار“ کے پیچھے کون سے مقاصد کار فرما ہوتے ہیں۔ بلند و بالا دیواروں اور اونچے پلوں پر رنگوں اور سپرے سے نقش و نگار بنانا یا مبہم الفاظ لکھنا کوئی آسان کام نہیں ہے اور پھر ویسے بھی برطانیہ میں بغیر اجازت کسی دیوار، عمارت یا پل پر کچھ تحریر کرنا یا پینٹنگز بنانا غیر قانونی ہے۔ انگریزی زبان میں ایسے نقش و نگار کو گریفیٹی(GRAFFITI)  کہا جاتا ہے۔ ویسے تو گریفیٹی کی تاریخ کئی ہزار برس قدیم ہے، دنیا کے مختلف حصوں میں صدیوں پرانی غاروں میں بنائے گئے نقوش اور خا کے اسی سلسلے کی کڑی ہیں موجودہ دور میں جدید گریفیٹی کا آغاز 60 کی دہائی سے ہوا۔ قیاس کیا جاتا ہے کہ ماڈرن گریفیٹی کی ابتدا نیویارک کے سب وے سسٹم اور فلاڈلفیا سے ہوئی جبکہ قدیم مصر، یونان اور رومن امپائر کے زمانے میں بھی اس طرح کی گریفیٹی اور وال پینٹنگزکے شواہد ملتے ہیں۔ ان دنوں گریفیٹی اور وال پینٹنگز کو آرٹ کا درجہ دیا جانے لگا ہے لندن اور دیگر شہروں میں بہت سے نامور آرٹسٹ ایسے ہیں جن کی وجہ شہرت گریفیٹی اور اونچی دیواروں پر میورلز اور نقش و نگار بنانا ہے۔ یو کے میں کسی کی پرائیویٹ پراپرٹی یا سرکاری عمارت پر گریفیٹی یا نقش و نگار بنانا ایک جرم ہے جس پر اینٹی سوشل بی ہیوئر ایکٹ 2003 لاگو ہوتا ہے۔اس قانون کے تحت ملزم کو جرم ثابت ہونے پر پانچ ہزار پاونڈ جرمانہ اور 10 برس تک کی سزا ہو سکتی ہے۔ اکتوبر 2008 میں ایک گریفیٹی آرٹسٹ ٹام کولیسٹر کو 30ماہ قید کی سزا دی گئی جس نے سا ؤتھ لندن کے کئی ریلوے سٹیشنز اور ریل گاڑیوں میں اپنے ”فن“ کے مظاہرے کا اعتراف کیا تھا جبکہ اس کے گینگ کے دیگر تین ارکان کو بھی بالترتیب 18، 15 اور 12 ماہ قید کی سزادی گئی، ٹام کولیسٹر نے سزا کے دوران ہی جیل میں خود کشی کرلی تھی۔ فلسطین کے مقبوضہ علاقوں اور خاص طور پر ویسٹ بینک کی دیواروں پر مقامی آرٹسٹ گریفیٹی اور میورلز بنا کر اسر ائیلی مظالم کے کے خلاف احتجاج کا اظہار کرتے ہیں۔ ان گریفیٹیز اور تصاویر کو فلسطین کے حامی دنیا بھر میں ایک دوسرے کے ساتھ شیئر کرتے ہیں۔ فلسطینی علاقوں میں اسرائیلی قبضے اور تسلط کے خلاف بنائی جانے والی یہ تصاویر انسانی حقوق کے نام نہاد علمبرداروں کے منہ پر ایک طمانچے کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اقوام متحدہ اور عالمی امن کے ٹھیکیدار فلسطینیوں کے اس نوشتہ دیوار کو پڑھ کر اس سے مسلسل نظریں چرائے ہوئے ہیں، فلسطینی بچوں اور مظلوموں کی یہ تصاویر بول نہیں سکتیں لیکن محسوس کرنے والوں کو ان کی آواز دور تک سنائی دیتی ہے۔جن حکمرانوں اور ارباب اختیار کو عوامی نوشتہ دیوار دکھائی نہیں دیتا یاوہ پڑھنا نہیں چاہتے پھرانہیں تاریخ اور حالات ایسا سبق پڑھاتے ہیں کہ اُن کی کئی نسلیں اُ سے فراموش نہیں کرپاتیں۔ شاہ ایران سے ضیا الحق تک جس نے بھی نوشتہ دیوار کو نہیں پڑھا وہ عبرتناک انجام کو پہنچا۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں بھی دیوار پر لکھی تحریریں اور مطالبے ہمارے حکمرانوں کو نظر نہیں آتے۔ پاکستان میں دیواروں اور عمارتوں پر گریفیٹی آرٹ یا میورلز اور جاذب نظر نقش و نگار بنانے کا کوئی رواج تو نہیں البتہ رنگ و روغن سے محروم دیواروں اور عمارتوں کو سیاسی نعروں، مردانہ کمزوری اور گنجے پن سے نجات کے لئے اشتہاروں سے ضرور رنگ دیا جاتا ہے جو دیواریں ایسی ا شتہاری مہم کی ضرورت کو پورا نہیں کر سکتیں اُن پر لکھ دیا جاتا ہے کہ ”یہاں پیشاب کرنا منع ہے“۔ ایک زمانے میں کراچی سکھر اور حیدر آباد کی دیواریں طرح طرح کے نعروں اور مطالبوں سے رنگ دی جاتی تھیں جن کا نوشتہئ دیوار یہ تھا کہ ”منزل نہیں رہنماچاہیئے“ انہیں نہ منزل مل سکی اور نہ ہی اُن کا رہنما انہیں میسر آسکا۔ 

پاکستان میں دیواروں پر لکھی جانے والی تحریروں سے زیادہ دلچسپ عبارتیں ٹرکوں اور بسوں کے پیچھے لکھی ہوئی ہوتی ہیں مثلا ”پاس کر یا برداشت کر“ یہ ایک ایسا جملہ ہے جومحض بس اور ٹرک چلانے والوں کے لئے نہیں اس کا اطلاق پورے معاشرے پر ہوتا ہے جو قوت ِبرداشت (ٹالرینس) کی آزمائش اور مسابقت کی ترغیب دیتا ہے۔ ”پپو یار تنگ نہ کر“ یہ جملہ بھی اپنے اندر کئی طرح کے معنی سمیٹے ہوئے ہے کیونکہ ہر ایک کا کوئی نہ کوئی پپو یار ہوتا ہے جو اُسے اپنے اپنے انداز میں تنگ کرتا ہے۔ توں لنگ جا ساڑی خیر ہے، دیکھ مگرپیار سے اور ماں کی دعا جنت کی ہوا جیسے جملے پاکستان کی عوامی ٹرانسپورٹ کے پیچھے درج ہوتے ہیں، معلوم نہیں پڑھنے والوں پر ان جملوں کا کیا اثر ہوتا ہے۔ آج کل تو لندن میں بھی بہت سے پاکستانیوں نے اپنی کاروں اوروینز کے پیچھے عمران خان کی تصاویر اورپی ٹی آئی کے جھنڈوں والے سٹکر زچسپاں کر رکھے ہیں جن پر کئی طرح کے سلوگن بھی درج ہوتے ہیں۔ لندن کی سڑکوں پر رواں دواں رہنے والی یہ گاڑیاں ہمہ وقت پاکستان تحریک انصاف کی تشہیری مہم کا ذریعہ بنی رہتی ہیں۔ انگریز لوگ اوور سیز پاکستانیوں کی عمران خان سے یہ عقیدت دیکھ کر حیران ہوتے ہیں۔ میں جب بھی پاکستان جاتا ہوں تو رکشوں،ویگنوں ٹرکوں اور بسوں کے پیچھے لکھے ہوئے جملوں اور عبارتوں کو ضرور پڑھتا اور لطف اندوز ہوتا ہوں ویسے تو پاکستان کی پبلک ٹرانسپورٹ پر منچلے ڈرائیوروں نے اشعار بھی لکھوا ر کھے ہوتے ہیں لیکن یہ اشعار عام طور پر بے وزن محض تک بندی پر مبنی ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ میں پاکستان میں سفر کے دوران دیواروں پر لکھے ہوئے اشتہارات اور نعروں کے کو بھی نظر انداز نہیں کرتا کیونکہ یہ تحریریں پاکستانی عوام کی دلچسپی اور مزاج کا اظہار ہوتی ہیں۔ دیواروں پر لکھے گئے حکیموں اور دوا خانوں کے اشتہارات سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہمارے ملک کے عوام کی ایک بڑی تعداد کس قسم کے جسمانی اور نفسیاتی امراض میں مبتلا ہے۔ اب تو ہمارے بعض نامور عالم دین جنت کی حوروں کی جسمانی ساخت اور حسن کی تعریف اتنی تفصیل کے ساتھ کرتے ہیں کہ اچھے خاصے متقی لوگوں کی رال ٹپکنے لگتی ہے اور اُن کے تصور میں ہروقت حوروں کے حسن جمال کا سراپا غالب رہتا ہے جس کے نتیجے میں بالآخر انہیں ایسے حکیموں سے رابطے کی ضرورت پیش آتی ہے جن کے اشتہارات سے پاکستان کی دیو اریں اپنا منہ چھپائے رہتی ہیں۔ پورے یونائیٹڈ کنگڈم میں بنائی جانے والی غیر قانونی گریفیٹی کو مٹانے کے لئے مختلف کونسلوں اور اداروں کو سالانہ ایک بلین پاونڈز سے زیادہ رقم خرچ کرنا پڑتی ہے حالانکہ پورے ملک میں اب بہت سے ایسے مقامات اور دیواریں گریفیٹی آرٹسٹوں کے لئے مختص کر دی گئی ہیں جہاں وہ اپنی مرضی سے اپنے فن کا مظاہرہ کرنے کیلئے اپنے شاہکار تخلیق کر سکتے ہیں۔ وہ لوگ جو گریفیٹی آرٹ میں دلچسپی رکھتے ہیں انہیں بھی ان مقامات پر یہ شاہکار دیکھنے کا موقع ملتا ہے۔ لندن میں لیک سٹریٹ آرچز ایک ایسی جگہ ہے جسے گریفیٹی آرٹسٹوں کے لئے مخصوص کر دیاگیا ہے اسے لندن گریفیٹی ٹنل بھی کہتے ہیں، یہ مقام ساؤتھ بینک میں لندن آئی سے چند قدم کے فاصلے پر ہے یہاں دنیا بھر سے گریفیٹی آرٹ کے شوقین اور فنکار آتے ہیں۔ مئی 2008 میں اس جگہ کا نز فیسٹیول کا انعقاد ہوا تھا جس کے بعد آرٹسٹوں اور فنکاروں کے مطالبے پر اسے لندن گریفیٹی ٹنل بنا دیا گیا۔ اس ٹنل میں آرٹ کے جو نمونے، نقش ونگار اور میورلز ایک بار بنائے جاتے ہیں کچھ عرصے بعد ان کی جگہ دوسرے فنکاروں کے شاہکار لے لیتے ہیں یعنی گریفیٹی ٹنل کے وزیٹرز کو ہر بار یہاں نئے سے نئے نمونے دیکھنے کو ملتے ہیں۔ گریفیٹی باقاعدہ کوئی آرٹ ہے یا نہیں؟ اس بارے میں لوگ متضاد رائے رکھتے ہیں جس آرٹ کو برطانیہ کی عمارتوں، دیواروں، پلوں اور سب ویز سے مٹانے کے لئے سالانہ ایک بلین پاونڈ کی خطیر رقم خرچ ہوتی ہو اور جس فن کے فنکاروں کو جرمانوں اور قید کی سزا کا سامنا کرنا پڑتا ہو اس آرٹ کا مستقبل کیا ہو گا؟ اس بارے میں کچھ نہیں کہاجا سکتا۔کہتے ہیں کہ جب برف پگھلتی ہے تو پانی اپنا رستہ خود بناتا چلا جاتا ہے، آبشاروں، جھرنوں اور جھیلوں میں تحلیل ہونے والا یہ پانی بالآخر دریا کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔

٭٭٭