55

عوام سے انصاف کریں

آج میں عوام کا مقدمہ عوام کے سامنے رکھنا چاہ رہا ہوں اور انصاف فراہم کرنے والے اداروں سے استدعا ہے کہ چونکہ جس فریق کا مقدمہ ہے وہ اس قابل نہیں کہ وہ اپنا کیس لڑ سکے وہ نہ ہی اس قابل ہے کہ اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی پر آواز بلند کر سکے یا کہیں احتجاج کر سکے جبکہ انصاف فراہم کرنے والے ہی اس فریق پر ظلم کر رہے ہیں اس لیے اس کا کوئی پرسان حال نہیں ہمیں بھی پتہ ہے کہ جب ظلم خوشی خوشی برداشت کیا جا رہا ہو تو وہاں انصاف کی خواہش بھی بے سود ہے پھر بھی ہم نے سوچا شاید نکارخانے میں طوطی کی آواز سنی جائے تو عرض یہ ہے کہ ابھی گرمیوں کا آغاز بھی نہیں ہوا کہ عذاب شروع ہو چکا ہے شاید عوام کو آنے والے دنوں کی ریہرسل کروائی جا رہی ہے ابھی اپریل ہے  اور اتنی گرمی بھی نہیں پڑ رہی لیکن بجلی کی غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ اور ٹرپنگ نےجینا دوبھر کر رکھا ہے ویسے کہنے کو ہمارے پاس بجلی فالتو ہے سولر سے اتنی بجلی پیدا ہونا شروع ہو چکی ہے کہ اب طریقے ڈھونڈے جا رہے ہیں کہ سولر کی حوصلہ شکنی کی جائے ہر چیز فالتو ہے لیکن عوام کو میسر نہیں اور نہ ہی بتایا جا رہا ہے کہ خرابی کہاں ہے بجلی کی بار بار ٹرپنگ نے لوگوں کو چڑچڑا بنا دیا ہے کروڑوں روپے کے ہوم اپلائنسز جل گئے ہیں لیکن مجال ہے کہ کسی کے کان پر جوں بھی رینک رہی ہو کوئی کسی کو پوچھنے والا نہیں کہ یہ کیا ہو رہا ہے کون اس کا ذمہ دار ہے جب بھی کسی ذمہ دار سے پوچھنے کی کوشش کی جائے تو جواب ملتا ہے کہ بجلی کا لوڈ بڑھ گیا ہے ترسیلی سسٹم پرانا ہو چکا ہے اس لیے وہ برداشت نہیں کر سکتا اور بار بار ٹرپ کر جاتا ہے بندہ پوچھے کہ جب آپ بجلی کی پوری سے بھی زیادہ قیمت وصول کر رہے ہیں اس پر ٹیکسوں کی بھی بھرمار کر رکھی ہے بجلی چوری اور لائن لاسز کا بوجھ بھی صارف پر مسلط کر رکھا ہے حالانکہ یہ سراسر ترسیلی کمپنیوں کی نا اہلی ہے اور وہ اپنی نااہلی کی سزا صارف کو دے رہے ہیں چونکہ بجلی کمپنیوں کی اجارہ داری ہے اور وہ حکومت کے انتظامی اختیارات استعمال کرکے عوام کا خون چوسنے کا لائسنس رکھتی ہیں اس لیے تمام تر نااہلیوں ناکامیوں اور بے اعتدلیوں کی سزا صارفین کو دی جا رہی ہے دنیا میں کسی بھی ضابطہ انصاف کو سامنے رکھ لیں یہ کہیں بھی نہیں کہ اشیاء فروخت کرنے والے کے نقصان اس کی نا اہلی کی سزا خریدار کو دی جائے لیکن چونکہ پاکستان کا باوا آدم ہی نرالا ہے یہاں صارف کو غلام سمجھ کر زبردستی چیز بھی فروخت کی جا رہی ہے ساتھ اس کو پابند کیا جا رہا ہے کہ یہ آئٹم نہ تو آپ کسی اور سے خرید سکتے ہیں اور نہ ہی خود بنا سکتے ہیں آپ ہماری پراڈکٹ ہماری مرضی سے خریدیں گے اور ہمارے ریٹس پر خریدیں گے کیا یہ دوغلی پالیسی نہیں کہ کسانوں کو کہا جا رہا ہے کہ ان کی گندم ٹکے ٹوکری اس لیے ہوئی ہے کہ اوپن مارکیٹ میں انھیں ریٹ نہیں مل رہا جب کسانوں کو ان کی فصلوں کی خریدوفروخت کے لیے اوپن مارکیٹ کا اصول واضح کیا گیا ہے تو پھر بجلی اور پٹرولیم کی خریدوفروخت کو بھی اوپن مارکیٹ کے اصولوں پر اوپن کر دیں جو بہتر سپلائی اور سستی بجلی کی فراہمی کو یقینی بنائے گا صارفین اس سے خریدیں گے۔

یہاں الٹا اصول ہے آپ نے بجلی بھی ان سے خریدنی ہے ان کی مرضی کے ریٹس پر خریدنی ہے اور دستیابی پر بات نہیں کر سکتے بندہ پوچھے کہ جب ایک دن بجلی کا بل جمع نہ کروانے پر آپ صارف کو جرمانہ کر دیتے ہیں تو یہی حق صارف کو بھی پہچتا ہے کہ وہ سہولت فراہم نہ کرنے پر آپ کو بل ادا نہ کرے لیکن کیا کیا جائے دوکان ایک ہے اور ریاست نے پابند کر رکھا ہے کہ آپ نے اسی سے خریداری کرنی ہے اور کوالٹی پر آواز بھی نہیں اٹھانی اور یہ بھی خیال رہے کہ ادائیگی میں رتی برابر بھی سستی کا مظاہرہ کیا تو ڈیفالٹر قرار دے کر ساری زندگی کے لیے آپ کو مطلوبہ سہولت سے محروم کر دیا جائے گا یہی حال گیس کا ہے گیس کے ارجنٹ کنکشنوں کے نام پر صارفین کے کروڑوں روپے محکمہ کے پاس کئی سالوں سے پڑے ہیں لیکن کہا جا رہا ہے کہ گیس کنکشنوں پر پابندی ہے اور دھڑلے سے محکمہ ایڈوانس میں حاصل کیے پیسے اپنے پاس رکھ کر بیٹھا ہے یہ دنیا کا کونسا قانون ہے کہ آپ ایک سہولت فراہم ہی نہیں کر سکتے تو سب سے بڑا جرم اور فراڈ یہ ہے کہ آپ نے صارف کو یہ کہہ کر کہ ہم آپ کو ارجنٹ سہولت میسر کردیں گے آپ 40 ہزار روپیہ فالتو جمع کروا دیں اور پھر آپ کہیں کہ تاحکم ثانی نئے کنکشنز پر پابندی ہے اس لیے آپ کو سہولت میسر نہیں کی جا سکتی اور آپ اپنے ایڈوانس کو بھی بھول جائیں اوپر سے گیس کی دستیابی کے بھی اوقات ہیں یہی حال دیگر اداروں کا ہے واسا بھی ایسا ہی کر رہا ہے پانی کے بل پورے لیے جا رہے ہیں لیکن شدید گرمی میں پانی دستیاب نہیں اور گرمیوں میں اکثر علاقے کربلا بنے ہوتے ہیں لوگوں راتوں کو جاگ جاگ کر پانی بھرتے ہیں کیا پوری ریاست میں کوئی شہریوں کے بھی حقوق ہیں یا نہیں ہر محکمہ من مانی کر رہا ہے اوپر سے کسی شکایت کی کوئی شنوائی نہیں ہر محکمہ کے قواعد وضوابط سرکاری ملازم اور اس محکمہ کو تحفظ فراہم کرتے ہیں اسے اجارہ دار بنانے کے لیے وضع کیے گئے ہیں محکمانہ عدالتیں بھی مذاق بن کر رہ گئی ہیں ان قواعد وضوابط میں کہیں صارف کے حقوق کا خیال نہیں رکھا جاتا اگر آپ کی بجلی کا میٹر جل جائے بےشک وہ سپارک کی وجہ سے ہی جلا ہو تو وہ بھی غلطی صارف کی تصور کی جاتی ہے اور صارف نئے میٹر کی قیمت بھی ادا کرنے کا پابند ہے اور اسیسمنٹ بل بھی جو محکمہ تجویز کرے دینے کا پابند ہے حالانکہ وہ بجلی مہیا کرنے والی کمپنی کے اہلکار کی نااہلی کی وجہ سے میٹر سپارک ہو کر جلا ہے لیکن اس میں خواہ مخواہ ہی صارف چور تصور کیا جاتا ہے کہ اس نے جان بوجھ کر میٹر کو آگ لگائی ہو گئی خدارا اس ملک کے عام شہری صارفین کا بھی کچھ سوچ لیں بل کی عدم ادائیگی تو سول نافرمانی تصور کی جاتی ہے لیکن عدم فراہمی کو آپ کیا تصور کریں گے وزیراعظم صاحب بجلی سستی کرنے کا بڑے زور وشور سے کریڈٹ لے رہے ہیں اب تو ٹیلیفون کی بیل کے ساتھ ہی وزیراعظم صاحب اپنی آواز میں باور کرواتے ہیں کہ ہم نے تاریخی معرکے کے طور پر بجلی سستی کر دی ہے لیکن وزیراعظم صاحب یقین کریں آپ کی اس کوشش کا رتی برابر بھی امپیکٹ نہیں آ رہا جب بجلی کی بار بار ٹرپنگ اور لوڈ شیڈنگ میں آپ یہ پیغام دے رہے ہوتے ہیں تو لوگ مذاق آڑا رہے ہوتے ہیں کون سی بجلی خدارا بجلی سستی کرنے کا کریڈٹ لینا ہے تو بجلی کی فراہمی کو یقینی بنائیں ورنہ آپ کا کریڈٹ ڈس کریڈٹ میں بدل جائے گا