یوکرائن روس تنازعہ اصل میں تب شروع ہوا تھا جب امریکہ اور ای یو نے مل کر 2014 میں یوکرائن میں یورو میڈن احتجاج کے ذریعے روس نواز صدر وکٹریانوکوچ کی حکومت ختم کردی تھی۔ اس سے جنوب مشرقی یوکرائن میں روس نواز مظاہرے شروع ہوگئے تھے اور عوام نے روسی فوجیوں کیساتھ ملکر یوکرائن کے خطے کریمیا پر قبضہ کرلیا تھا جسے بعد میں روس نے اپنا حصہ ڈیکلیئر کردیا تھا۔ روس کا شروع دن سے یہی مؤقف رہا ہے کہ یوکرائن کو نیٹو میں شامل نہ کیا جائے لیکن جب امریکہ اور ای یو نے اعلان کیا کہ یوکرائن نیٹو میں شامل ہوگا تو روس نے یوکرائن پر حملہ کردیا۔ اور امریکہ کی قیادت میں نیٹو نے روس پر سخت پابندیاں لگا دیں اور یوکرائینی افواج کو لڑنے کیلئے اسلحہ دینا شروع کردیا۔ گزشتہ تین سال میں یوکرائن لاکھوں شہری مارے جاچکے ہیں اور ملک کا آدھے سے زیادہ انفراسٹکچر تباہ ہوچکا ہے جبکہ روس نے ایک تہائی یوکرائن پر قبضہ بھی کرلیا ہے۔ اتنے زیادہ نقصانات کے بعد ٹرمپ نے بالآخر روس کا مؤقف مان کر روسی شرائط پر ہی جنگ بندی اور صلح کی پیش کش کردی ہے جسے یورپی یونین ماننے سے انکاری ہے۔ ذیل میں دیئے گئے ٹرمپ، پوتن اور یورپی یونین کے بیانات پڑھیں تو آپکو اس سارے منظر میں روس کا مؤقف زیادہ مضبوط نظر آئے گا۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حالیہ بیانات میں روس-یوکرین تنازع پر یوکرین کو جنگ شروع کرنے کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے کہا کہ یہ تنازع یوکرین کی جانب سے معاہدہ نہ کرنے کی وجہ سے شروع ہوا۔ ٹرمپ نے مزید کہا کہ اگر وہ صدر ہوتے تو یہ جنگ کبھی نہ ہوتی۔ صدر ٹرمپ نے اس جنگ کو تیسری عالمی جنگ کا پیش خیمہ قرار دیتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ اگر اس تنازع کو روکا نہ گیا تو یہ عالمی سطح پر سنگین نتائج کا باعث بن سکتا ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ یورپی ممالک کو اس جنگ کے خاتمے میں زیادہ کردار ادا کرنا چاہیے اور امریکہ پر بوجھ کم ہونا چاہیے۔ فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون کے ساتھ ملاقات میں، ٹرمپ نے یوکرین میں یورپی امن فوج کی تعیناتی کی تجویز پیش کی، جسے روس نے مسترد کر دیا ہے۔ کرملن کے مطابق، یوکرین میں یورپی افواج کی تعیناتی کسی صورت قابل قبول نہیں ہے۔ ٹرمپ کی ان بیانات پر مختلف حلقوں سے تنقید بھی سامنے آئی ہے، جن میں ان کے مؤقف کو حقیقت سے بعید اور روس کی حمایت قرار دیا گیا ہے۔ انکے ناقدین کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کا یہ مؤقف یوکرین کی خودمختاری اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔
روسی صدر ولادیمیر پوتن نے فروری 2022 میں یوکرین سے علیحدگی اختیار کرنے والے دو علاقوں، دونیتسک اور لوہانسک، کو نہ صرف آزاد ریاستوں کے طور پر تسلیم کیا تھا بلکہ انہوں نے ان علاقوں میں امن قائم رکھنے کے لیے روسی فوج بھیجنے کا حکم بھی دے دیاتھا۔ پوتن نے اپنے بیانات میں یوکرین کی موجودہ حکومت کو مغرب کی کٹھ پتلی قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یوکرین کی حقیقی خودمختاری صرف روس کے ساتھ اشتراک سے ممکن ہے۔ پوتن نے نیٹو کی مشرق کی طرف توسیع کو روس کے لیے ایک سرخ لکیر قرار دیا ہے۔ انکے مطابق، مغربی ممالک کی مداخلت اور یوکرین کو نیٹو میں شامل کرنے کی کوششیں روس کی سلامتی کے لیے خطرہ ہیں۔ یہ نکات شروع سے ہی پوتن کے اس مؤقف کی عکاسی کرتے ہیں جو وہ یوکرین تنازع کے حوالے سے وقتاً فوقتاً پیش کرتے رہے ہیں۔
یورپی یونین نے روس-یوکرین تنازع پر مستقل طور پر یوکرین کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کی حمایت کی ہے۔ حالیہ پیش رفت میں، یورپی یونین اور یوکرین نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں ایک مشترکہ قرارداد پیش کی ہے جس میں روسی حملے کی مذمت اور روسی افواج کے فوری انخلا کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ اس قرارداد میں یوکرین پر روسی حملے کا ذکر کرتے ہوئے روسی افواج کے مکمل انخلا کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ اس کے برعکس، امریکہ نے ایک نیوٹرل قرارداد پیش کی ہے جس میں “روس-یوکرین تنازع” جیسے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں، اور روسی حملے کا براہ راست ذکر نہیں کیا گیا۔ یہ فرق یورپی یونین اور امریکہ کے مؤقف میں اختلافات کو ظاہر کرتا ہے۔ یورپی یونین کے خارجہ پالیسی کے سربراہ نے اس بات پر زور دیا ہے کہ مذاکرات سے قبل روس کو مراعات دینا مناسب نہیں ہے، اور تمام فریقین کو مذاکرات میں شامل کرنا ضروری ہے۔ انہوں نے کہا، “ہم، مذاکرات شروع ہونے سے پہلے ہی انہیں (روس) کو وہ سب کچھ کیوں دے رہے ہیں جو وہ چاہتے ہیں؟” مجموعی طور پر، یورپی یونین یوکرین کی خودمختاری کی حمایت کرتے ہوئے روسی جارحیت کی مذمت کرتی ہے اور چاہتی ہے کہ کسی بھی امن مذاکرات میں یوکرین کی شمولیت کو یقینی بنایا جائے۔