288

وہ کریڈٹ کارڈ والی۔

مجھے زندگی میں جتنی نفرت کریڈٹ کارڈز بنانے سے ہے اس سے دگنی نفرت کریڈٹ بنوالینے والوں سے ہے.

اسکی مترنم ہنسی اور لاڈ بھرا لہجہ سن سن کر ہم نے ایک دن طے کر ہی لیا کہ چلو آج بلا لیتے ہیں اور ایک میٹنگ کرہی لیتے ہیں بالاخر اس کریڈیٹ کارڈ والی لڑکی سے جو دو مہینوں سے مسلسل فون کئے جارہی ہے کہ سر پانچ منٹ دیجئے صرف پانچ منٹ……… سچی بات یہ ہے اس کی “صرف پانچ منٹ” والی گرادن ہی ہمیں لے ڈوبی۔ کہ بیگم کے علاوہ بھی کوئی ہم سے یہ فرمائش کرسکتی ہے۔

وہ میرے دفتر آگئی کیا لڑکی تھی پہلی نظر میں ھم اس پر فدا سے ھوگئے اوپر سے اسکی شرمیلی مسکراھٹ اور دانتوں تلے نچلا ہونٹ دبانا….. اف اللہ اس دن یوسفی صاب کا لکھا سمجھ میں آگیا کہ مرد کا کتاپن کیسے ہوتا ہے۔ اس دن واقعی زندگی میں پہلی اور اخری بار ہم نے اپنے شادی شدہ ہونے پر آفسوس کیا.

مجھے ایسا لگا جیسے وہ میرا کریڈٹ کارڈ بنانے نہیں بلکہ اپنے لئے میرا رشتہ لینے آئی ہو. آللہ میں تو خود آؤٹ آف کنٹرول ھونا شروع ھوگیا. سیلیری پوچھنے کے بعد اف اللہ کیا بتاؤں کیا قاتل انگڑائی لی کہ بس دل میں آیا کہ…… کروں تو کیا کروں. یہ موٹی موٹی آنکھیں پتلے پتلے ھوںٹ اور کتابی چہرہ…… مجھے پتہ ہے کہ آپ لوگوں نے وزن کا بھی پوچھنا ھے۔ بتاتا ھوں بھرا بھرا گداز جسم اور اس پر اس کی اسکین ٹائیٹ………. پتہ نہیں کب وہ میرا بائیو ڈیٹا اور کاغذات بمعہ دستخط لیکر چلی بھی گئی وہ تو بھلا ہو ہمارے موبائل فون کا جو جھنجھنا اٹھا اور بیگم کے کچھ کہنے سے پہلے ہم نے اس لڑکی کا نام لیکر سلام کیا تو ہوش ٹھکانے آگئے.

ھفتہ بھر ہم اس امید پر کہ پھر شاید اس کا کوئی فون آجائے کاش ایک بار مگر ہماری پوزیشن ہمیں اجازت بھی نہیں دے رہی تھی کہ اسے فون کیا جائے. ایک دن اچانک اسکی مترنم آواز سنائی دی اور ہم نے ھکلا کر وعلیکم کہا. ٹک سے اس نے کہا سر مبارک ہو مگر ڈنر کب کراؤگے اپکا پلاٹنیم کارڈ بن چکا ہے. ہم نے جھٹ سے کہا ہوٹل آپ بتاؤ ڈنر ہماری طرف سے اس نے اوکے کردیا.

دوسرے دن کارڈ ملا اور ہم کو اپنی قسمت پر یقین نہیں آرہا تھا کہ وہ ہماری پہلو میں بیھٹی تھی مطلب گاڑی میں۔ اسکو بہترین پانچ ستارہ ہوٹل میں ڈنر کراکے اور ہائپر اسٹار سے شاپنگ کرواکے جب اس کو رخصت کرنے اسکے گھر کے قریب پہنچے تو اچانک اس نے ایک بوسہ ھمارے گال کا لیا تو ہم حسب روایت شاک میں آگئے اور ہماری گندی سوچ پتہ نہیں کہاں کہاں کی سیر کرواتی رہی.

دوسرے دن بات اس سے اگے بڑھی اور شام کو طارق روڈ لوٹتے رہے شاپنگ ہوتی رہی اور ہم اسکی داد سمیٹتے رہے. گھر میں پہلی بار بیگم پر بھی صحیح رعب ڈالا اور وہ بھی شاک میں کہ کیا ایسا بھی ممکن ھے؟ ناممکن کو ممکن بناتے بناتے بناتے جب اگلے مہینے کریڈٹ کارڈ کا بل آیا تو ڈیڑھ کا ھندسہ کراس کرچکا تھا اور ہم یہ سوچتے رہیں کہ کیا کھویا کیا پایا۔ کیلکولیٹر اٹھا کر حساب لگاتے رہے کہ اتنے خرچے میں تو رابعہ انعم، ریما سے لیکر نیلم منیر تک کی ہستیوں کو فتح کرسکتے تھے اور وہ سارا کام اس بینک کی میٹرک پاس لڑکی نے کیا.

خیر آللہ کا شکر ھے کارڈ قسطوں پر کراکر ہم اپنی عزت بچا گئے.

مگر آج کسی قطرینہ کیف کا بھی فون آتا ھے کہ کیا میں عارف خٹک صاب سے مخاطب ہوں تو فوراً منہ سے نکل جاتا ھے کہ نہیں جناب خٹک صاب کا انتقال دو مہینے پہلے ھوا ھے اور میں گل خان ہوں سود کے وصولی کیلئے اس کے در پر بیٹھا ہوں……… اج یہی بات ہم نے انجانے میں اپنی بیگم سے کرلی اگے سے اس نے کہا کہ شکر ھے کہ عدت میں ایک ماہ رہ گیا ہے………۔۔۔۔۔۔

اپنا تبصرہ بھیجیں