ہندوستان میں مسلم حملہ آوروں کے خلاف جدوجہد میں مہارانا سنگرام سنگھ معروف بہ رانا سانگا کا بڑا نام ہے۔ لودھی حکومت جو مضبوط قدم جمائے ہوے تھی، مالوہ کی کامیابی کے بعد رانا سانگا کی راجپوتی تلوار سے زخم اٹھانے لگی۔ رانا قسمت کے دھنی اور مرد بحران بھی تھے، جنگوں میں کئی بار موت کے منہ سے زندگی واپس چھین لائے، مضبوط لودھیوں کو شکست دی اور بکھرے راجپوت جنگجؤں کے مہارانا بنے۔ ایسے میں لودھیوں کو سواہا کرنے کیلیے مہارانا نے چال چلی۔
روایت ہے کہ مہارانا نے بابر کو ہندوستان پہ حملے کیلیے اکسایا، یہ سوچ کر کے دونوں آپس میں لڑ کر کمزور ہوے تو تھکے ہوے فاتح سے میں خود نپٹ کر راجپوتانہ کی سلطنت دہلی تک لے جاوں گا۔ افسوس مگر بابر قسمت کا زیادہ دھنی نکلا، لودھی کو تو شکست دی ہی، ساتھی سردار کی بیوفائی اور توپوں کی “جدید ٹیکنالوجی” کے ساتھ مہارانا کو بھی “خانواہ” کے مقام پر شکست فاش دے کر راجپوت مزاحمت کی کمر توڑ دی۔ رانا کے بابر کو بلاوے کی بات بھی نکل گئی اور راجپوتوں میں مہارانا کی اخلاقی حیثیت کمزور ہوئی۔
چند ہی ماہ میں مہارانا کسی کے دئیے زہر سے فقط تینتالیس برس کی عمر میں مارے گئے۔ راجپوت روایت ہے کہ قسمت کے دھنی اور مرد بحران مہارانا کو انکی غیرت مار گئی اور زہر خود انکی خواہش پہ دیا گیا تاکہ راجپوتوں کو اگلا رہنما میسر آئے۔ مہارانا کی موت نے اسے مزید اخلاقی بدنامی سے بھی بچا لیا اور ان ہی کے خاندان سے کئی سورما مغل حکومتوں کے خلاف مزاحمت کا استعارہ بنے۔
اسی کی دھائی میں ابھرنے والے نواز شریف بھی قسمت کے دھنی اور مرد بحران رہے ہیں۔ کبھی حکومت گرنے لگی تو آمر ضیا انکا “کلہ مضبوط” قرار دیتے ہوے اپنی فکری وراثت اور عمر دے گیا۔ وہی نواز نوے کی دہائی میں “ڈکٹیشن نہیں لوں گا” کہ کر جمہور پسند ذہنوں کا ہیرو بن گیا۔ (گو چند دن بعد ہی ڈکٹیشن لے کر استعفی دینا پڑا تھا)۔ جہانگیر کرامت، سجاد علی شاہ اور فاروق لغاری کو چت کیا۔ مشرف سے پٹا مگر جان بچ گئی اور دولت بھی۔ اسی مشرف کی زندگی میں واپس حکومت ملی اور اسکو کچھ دیر ہی سہی تگنی کا ناچ تو نچایا(ناچنا جنرل کو ویسے بھی پسند تھا مگر تگنی کا ناچ انکو پہلی بار ناچنے کو ملا)۔ یہ سب تاریخ ثابت کرتی ہے کہ نواز شریف قسمت کے دھنی اور مرد بحران ہیں، یا کم از کم تھے ضرور۔ مگر پھر عمران خان ٹکرا گیا۔
عمران بھی قسمت کا دھنی رہا ہے اور مرد بحران بھی۔ پرانا تو جو بھی تھا، الیکشن سے کچھ دن قبل موت کے منہ سے واپس آ گیا۔ الیکشن گو ہار گیا مگر اپوزیشن لیڈر کا رول مل گیا۔ دھرنے میں گو پسپائی ہوئی مگر ماحول بنا گیا اور پھر قسمت نے اسے پانامہ عطا کر دیا اور خان نے اس عطا کا مکمل شکرانہ ادا کیا۔ نواز شریف کو قسمت نے اس بار بھی مواقع دئیے مگر وہ خود اعتمادی میں مارے گئے۔ اگر اس شور کے اٹھتے ہی استعفی دے کر انکوائری کیلیے پیش ہو جاتے تو شاید “فرشتوں” کو وہ بہت سا “ناحق” لکھنا ہی نا پڑتا جو اب دس جلدوں میں لکھا ہے۔ کوئی اور نا سکی نواز تو حقائق جانتے تھے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے، جس میں مریم نواز کو کافی ریلیف ملا تھا، کے فورا بعد مٹھائی کھانے کے بجائے استعفی دے کر پیش ہو جاتے تو کم از کم دھی رانی خواری سے بھی بچ جاتیں اور شاید وزیراعظم بھی بن جاتیں۔ مگر حد سے بڑھی خود اعتمادی نے لڑ بھڑنے پر آمادہ کیا۔
اس بار مگر اک بات مختلف تھی اور وہ تھی، جھوٹ۔ وزیراعظم جھوٹ کے مرتکب ہوئے اور اب اخلاقی پوزیشن کھو بیٹھے ہیں۔ “قبیلے کے حمایتی” بھی سوچتے ہیں کہ جو وزیراعظم بن کر بھی چپ چپیتے دس ہزار درہم تنخواہ لیتا رہا، جسکی اپنی آف شور کمپنی نکل آئی ہے؛ وہ اخلاقی بنیادوں پہ کہاں کھڑا ہے؟ کیا قبیلے کی سرداری کا حقدار رہا ہے؟ نواز شریف اپنی بڑھی خود اعتمادی اور نادان دوستوں کے مشوروں کی بدولت شاید مزید بھڑنے کے موڈ میں ہوں۔ لیکن وہ بھول رہے ہیں کہ خواہ سازش اسٹبلیشمنٹ کی ہی ہو، قصور اور جھوٹ انکا بھی نکل آیا ہے۔
اس وقت پاکستان کی اس سیاسی ابتری کا پاکستان اور جمہوری نظام کو شدید نقصان ہو گا۔ معیشت مزید ڈوبے گی اور بین الاقوامی سطح پر بھی پاکستان کی پوزیشن کمزور رہے گی کہ ملک کے وزیراعظم اور جمہوریت کے مستقبل پر ایک سوالیہ نشان آویزاں ہے۔ نتیجہ شاید ایسا نکلے کہ کسی کے ہاتھ بھی کچھ نا آئے کیونکہ جو ہو رہا ہے وہ ایسی بس ہے کہ جسکا سٹیئرنگ کسی کے بھی ہاتھ نہیں۔ نواز شریف البتہ اک بار پھر مرد بحران بن سکتے ہیں اگر وہ استعفی کا زہر پی کر حکومت کسی اور کے حوالے کر دیں۔ ذاتی اقتدار دے کر جمہوریت بچا لیں۔ شاید نواز ایسا کر کے دوبارہ وزیر اعظم نا بن پائیں، مگر تاریخ میں جمہوری نظام کو بچا لینے کیلیے یاد رکھے جائیں گے۔ (مکالمہ ڈاٹ کام)