26

ٹورزم انڈسٹری

میں بھی پاکستان میں رہتے ہوئے یہی سمجھتا تھا کہ ہم دنیا کی بہترین قوم ہیں، ہمارے کھانے دنیا کے بہترین کھانے ہیں، ہم اس کرہ ارض کے سب سے دیانتدار، ایماندار اور صفائی پسند لوگ میں، ہماری تہذیب و تمدن کا دنیا بھر میں کوئی ثانی نہیں، ہم جیسے مہمان نواز، خوش اخلاق اورمحب وطن دنیا میں کہیں اور نہیں پائے جاتے لیکن جب میں نے پاکستان سے ہجرت کی اور مجھے مختلف براعظموں کے درجنوں مسلم اور غیر مسلم ممالک کی سیر و سیاحت کا موقع ملا تو میرے سارے مغالطے اورتمام خوش فہمیاں دور ہو گئیں۔ مجھے اس حقیقت کا ادراک ہونے لگا کہ سفر کو وسیلہ ظفر کیوں کہا جاتا ہے، مختلف ملکوں اور خطوں کے لوگوں سے ملنے، اُن کے طرز عمل کے مشاہدے اور زندگی گزارنے کے سلیقے کو دیکھ کر انسان کو اندازہ ہوتا ہے کہ دوسری اقوام ہم سے کتنی مختلف ہیں اور اُن کے سماجی اور معاشی حالات ہم سے کس حد تک بہتر یا ابتر ہیں۔سیر و سیاحت کے شوقین لوگ مجھے ہمیشہ اچھے لگتے ہیں جو لوگ اپنے وسائل کو دنیا دیکھنے پر خرچ اور صرف کرتے ہیں میں ان سے بہت متاثر ہوتا ہوں کیونکہ ان لوگوں کے مشاہدات انہیں معلومات کا خزانہ بنا دیتے ہیں ایسے لوگوں کی گفتگو سے سننے والے سرشار ہو جاتے ہیں۔ یہ لوگ ہر وقت کنویں کے مینڈک کی طرح ٹرانے سے گریز کرنے لگتے ہیں، خود کو دنیا کی بہترین قوم کا فرد قرار دینے سے باز آجاتے ہیں۔ جدید ٹیکنا لوجی اور زمانے کی تیز رفتار ترقی نے سیر و سیاحت کو بہت آسان اور آرام دہ بنا دیا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دنیادیکھنے اور سیر و سیاحت کے خواہش مندوں کی تعداد میں تیری سے اضافہ ہو رہا ہے اسی لئے سیاحت یعنی ٹورازم ایک مستحکم انڈسٹری بن چکی ہے۔ عالمی سطح پر جائیزہ لیا جائے تو بہت سے ممالک ایسے ہیں جن کے اقتصادی استحکام میں ٹورازم انڈ سٹری سب سے زیادہ اہم ہے بلکہ اُن کی معاشیات کا انحصارہی اس صنعت پر ہے۔ جس ملک میں سیاحوں کی آمد ورفت کا سلسلہ جاری رہتا ہے وہاں ہوٹل، ریسٹورانٹس، شاپنگ سنٹرز، ائیر لائنز اور ٹرانسپورٹ سروس فروغ پانے لگتی ہے لیکن یہ بھی اٹل حقیقت ہے کہ سیاح یعنی ٹورسٹ صرف انہی ملکوں کا رخ کرتے ہیں جہاں امن وامان کے حالات مثالی ہوں، جہاں سیاحوں کے دیکھنے کے لئے تاریخی عمارات، نوادرات یا قدرتی مناظر اور ماحول کی کشش ہو یا ڈزنی لینڈ اور میڈم تساؤ میوزیم جیسے عجائب خانے ہوں، معیاری ہوٹل اور شاندارریسٹورنٹس ہوں، آرام دہ سواری اور کرنسی تبدیل کرانے کی سہولت ہر جگہ موجود ہو، جہاں کاروباری لوگ سیاحوں سے دو نمبری نہ کرتے ہوں۔ سیاح جس ملک میں جاتے ہیں اس ملک کو نہ صرف زر مبادلہ ملتا ہے بلکہ اس کے بارے میں جو تاثرات وہ لے کر جاتے ہیں وہ سب سے زیادہ اہمیت رکھتے ہیں۔ میرے ایک دوست گزشتہ دنوں لندن سے سپین گئے، انہیں الحمرا اور مسجد قرطبہ دیکھنے کا بہت اشتیاق تھا جب وہ چند روز وہاں گزار کر واپس آئے تومجھے بتانے لگے کہ مسجد قرطبہ اب عیسائیوں کی عبادت گاہ میں تبدیل ہو چکی ہے لیکن وہاں سیاحوں کے لئے انتظامات اور سہولتوں کا بہت  اہتمام کیاگیا ہے۔ سپین میں تاریخی ورثے کی جس طرح حفاظت اوردیکھ بھال کی جاتی ہے کوئی بھی سیاح اس کی تعریف کئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ اٹلی کے شہرروم میں ہرسال لاکھوں سیاح صرف اُن تاریخی نوادرات اورعمارات کو دیکھنے کے لئے جاتے ہیں جو صدیوں پہلے سے وہاں موجود ہیں اور حکومت نے اُن کی دیکھ بھال اور حفاظت میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی۔

خوشحال اور متمول پاکستانیوں کی اکثریت (چاہے وہ پاکستان میں رہتے ہوں یا برطانیہ اور یورپ میں) سیرو سیاحت میں کم ہی دلچسپی لیتے ہیں بلکہ وہ تو اسے وقت اور وسائل کو ضائع کرنے کے مترادف سمجھتے ہیں حالانکہ وہ خود بہت ہی فضولیات مثلاً جوئے اور شراب نوشی وغیرہ پر اپنا مال و دولت لٹانے سے گریز نہیں کرتے، سیرو سیاحت سے انسان جو کچھ سیکھتا ہے وہ سب کچھ اُسے کوئی درسگاہ بھی نہیں سکھا سکتی۔ برطانیہ میں سکول اور کالج کے طلبہ و طالبات کو غیر ملکی دوروں اور خاص طور پر ہمسایہ ممالک کی سیاحت پر لے جایا جاتا ہے۔ طالبعلم کتابوں میں ان ملکوں کے بارے میں جو کچھ پڑھتے ہیں وہ جب خود ان ملکوں میں جاکر اس کا مشاہدہ کرتے ہیں تو نہ صرف ان کی معلومات میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ وہ  پڑھنے اور دیکھنے کی کی خوشگوار تفریق کے تجربے سے بھی گزرتے ہیں اور ان ملکوں کے بارے میں ان کی بہت سی غلط فہمیاں بھی دور ہو جاتی ہیں۔ ایک زمانے میں افغانستان، بنگلادیش، بھوٹان، انڈیا، مالدیپ،نیپال، پاکستان اور سری لنکا نے مل کر ساوتھ ایشین ایسوسی ایشن فار ریجنل کو آپریشن کے نام سے ایک تنظیم تشکیل دی تھی۔8دسمبر 1985 میں قائم ہونے والی یہ تنظیم سارک ابتدا میں بہت فعال تھی، طلبا اور دانشوروں کے وفود اس کے ذریعے رکن ممالک کے دورے کرتے تھے، ثقافتی طائفے 8 ممالک میں اپنے فن کے مظاہرے کرتے تھے، سیاحت کا فروغ بھی سارک کے بنیادی مقاصد میں شامل تھا لیکن پھر یہ تنظیم سیاسی مصلحتوں کا شکار ہو گئی۔ اب بھی اس کا ہیڈ کوارٹر کٹھمنڈونیپال میں ہے مگر اب اس کا ہونا نہ ہونا ایک برابر ہے۔ سارک ممالک کے لوگ آج بھی اپنے ہمسایہ ممالک کی سیاحت کے شوقین ہیں لیکن اس خطے کی خطر ناک اور عوام دشمن سیاست نے ایسے حالات پیدا کر دئے ہیں سیر وسیاحت تو ایک طرف لوگوں کو اپنے کسی عزیز یا دوست کو ملنے کے لئے کسی ہمسایہ ملک کا ویزا حاصل کرنے کے لئے بھی طرح طرح کی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑ تا ہے۔ سارک ممالک اور خاص طور پر پاکستان اور بھارت اگر سیاحت کے فروغ کے لئے اپنی پالیسیز پر نظر ثانی کریں تو نہ صرف دونوں ملکوں کے درمیان سیاسی کشید گی میں کمی آئے گی بلکہ دونوں طرف کے عوام کے درمیان پائی جانے والی غلط فہمیاں اور بد گمانیاں دور ہوں گی۔ انسان ہو یا ملک جب تک وہ اپنے ہمسایوں سے تعلقات کو خوشگوار نہ بنائیں اس وقت تک وہ پرسکون اور خوشحال نہیں ہو سکتے۔ تاریخ گواہ ہے کہ یورپ کے بہت سے ہمسایہ ممالک جب تک ایک دوسرے کو اپنا دشمن سمجھتے رہے جنگ و جدل پر آمادہ رہے فوج اور اسلحے بارود کے ذریعے ایک دوسرے کو نیست و نابود کرنے پر تلے رہے اُس وقت تک پسماندگی نے انہیں اپنی گرفت میں لئے رکھا اور جب انہوں نے اس حقیقت کو سمجھ لیا کہ ہمسایہ ممالک سے خوشگوار تعلقات کے بغیرہم ترقی نہیں کر سکتے اس کے بعد یہ ملک ترقی کے سفر پر گامزن ہوئے اور اب خوشحالی کی منزل پر پہنچ چکے ہیں اور دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ ہر سال فرانس، جرمنی، ہالینڈبلجیئم اور دنیا کے دیگرممالک سے تقریباً 3 کروڑ 80 لاکھ لوگ سیر و سیاحت کے لئے برطانیہ آتے ہیں جس کا مطلب ہے کہ برطانیہ کے اقتصادی استحکام میں ٹورازم انڈسٹری بہت اہمیت رکھتی ہے اسی لئے حکومت لندن اور برطانیہ کے مختلف شہروں میں آنے والوں کا سیاحوں کا خصوصی خیال رکھتی ہے۔پورے ملک میں ٹورسٹ انفارمیشن سنٹر قائم ہیں، قیمتی اشیا خریدنے والے سیاحوں کووی اے ٹی میں چھوٹ دی جاتی ہے، سیاحوں کی گمشدہ اشیا کے حصول کے لئے خصوصی ڈیسک بنائے گئے، لندن شہر میں جگہ جگہ کرنسی تبدیل کروانے کی سہولت موجود ہے، ٹرین اور بسوں کے ٹکٹ یاڈے پاس خریدنے کیلئے ہر جگہ اویسٹر ٹرمینل دستیاب ہیں، صاف ستھرے پبلک ٹوائلیٹس بھی جگہ جگہ بنائے گئے ہیں، شاندار کافی شاپس اور حلال فوڈ سمیت طرح طرح کے کھانوں کے ریستوران پورے لندن میں ہر جگہ سیاحوں کی تواضع کے لئے موجود ہیں۔ سنٹرل لندن میں سیاحوں کی دلچسپی کیلئے قدم قدم پر سوونیر شاپس اور شاپنگ سنٹرز بنے ہوئے ہیں۔ جو ممالک بھی ٹورازم انڈسٹری کی اہمیت اور افادیت کا ادراک رکھتے ہیں اُن کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ وہ سیاحوں کی ہر ضرورت اور سہولت کا اس طرح خیال رکھیں کہ اگر وہ ایک بار اُن کے ملک میں آئیں تو دوبارہ بھی یہاں آنے کے خواہش مند رہیں۔ آپ کو یہ جان کر حیرانی ہوگی کہ برطانیہ کو گزشتہ ایک سال کے دوران ٹورزم سے 31.1 بلین پاونڈز کا زر مبادلہ حاصل ہوا۔ مغربی ممالک کے سیاح جب کسی دوسرے ملک کی سیاحت اور سیر کے لئے جاتے ہیں تو وہاں کے اچھے ہوٹلز میں قیام کرتے ہیں، عمدہ کھانے کھاتے ہیں، اپنی ہالیڈیز کو زیادہ سے زیادہ آرام دہ اور خوشگوار بناتے ہیں۔ یہ لوگ سال بھر ایک مخصوص رقم اپنی چھٹیوں کے لئے جمع کرتے (جس طرح ہمارے لوگ کمیٹی ڈالتے ہیں) اور پھر اس رقم کو اپنی سیاحت پر خرچ کرتے ہیں جبکہ ہمارے بہت سے خوشحال اور مال دار پاکستانی اگرکبھی لندن یا کسی یورپی ملک کی سیاحت پر جاتے ہیں تو اپنے جمع شدہ مال سے کچھ خرچ کرنے کی بجائے اُن کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ انہیں کسی عزیز یا دوست کے ہاں مفت کی رہائش مل جائے اور وہ انہیں سیر و سیاحت کے لئے لے کر جائے اور شاپنگ کرائے۔ اسی لئے بہت سے اوور سیز پاکستانی وطن عزیز جا کر کسی کی دعوت شیرازیا استقبالیہ تقریب میں شرکت یا ر ہائش کی سہولت قبول کرنے سے گریز کرتے ہیں کہ کہیں اُن کا میزبان اس”کرم فرمائی“ کا حساب برابر کرنے کے لئے لندن نہ آجائے۔ ہر سال ہالیڈیز پر جانا انگریزوں کی سماجی ضرورت ہے اُن کا خیال ہے کہ سال بھر کے معمولات اور یکسانیت سے چھٹکارہ حاصل کرنا انسانی مزاج کے لئے بہت ضروری ہے، گورے لوگ جب سالانہ ہالیڈیز سے واپس آتے ہیں تو خود کو پھر سے تروتازہ اور کام کے لئے چاک و چوبند سمجھنے لگتے ہیں۔ جو لوگ ہالیڈیزکے لئے کسی دوسرے ملک جانے کی استطاعت نہیں رکھتے وہ برطانیہ کے کسی دوسرے شہر یا حصے میں چھٹیاں گزارنے چلے جاتے ہیں۔ میں گزشتہ موسم گرما میں ویلز گیا تو وہاں میرے ہوٹل میں غیرملکیوں سے زیادہ یونائیٹڈ کنگڈم کے مختلف حصے حصوں سے آئے ہوئے انگریزوں اور اُن کی فیملیز قیام پذیر تھیں۔ برطانوی اور یورپی شہری عام طور پر اُن جگہوں پر چھٹیاں گزارنا پسند کرتے ہیں جہاں صاف ستھرے ساحل ہوں، جزیرے اور سمندری ساحل اکثر لوگوں کے لئے کشش کا باعث ہوتے ہیں۔ چھٹیوں، تعطیلات اور سیاحت کے لئے ملکوں اور شہروں کا انتخاب کرتے وقت ہر قوم کے لوگوں کی اپنی اپنی الگ ترجیحات ہوتی ہیں۔سفر اور سیاحت کے حوالے سے میرے دو عزیز دوست بہت خوش نصیب ہیں جن میں لندن سے شاہد علی سید ہیں جو دنیا کے 195 ملکوں میں سے اب تک(72) ملکوں کا سیر سپاٹا کر چکے ہیں جبکہ دوسرے دوست گلاسگو کے طاہر اانعام شیخ ہیں جو(60) سے زیادہ ممالک کی سیاست کا لطف اُٹھا چکے ہیں اور کئی ملکوں میں وہ بار بار جاتے رہے ہیں۔ ان دونوں احباب کی سماجی اور سیاسی بصیرت بہت متاثر کن ہے شاید اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ سیاحت سے انسانی ویژن میں وسعت پیدا ہوتی ہے اور وہ مفروضوں کی بجائے حقائق کی روشنی میں ہرشے کو دیکھتا ہے اور اس کاٹالیرنس لیول بھی عام لوگوں سے بہتر ہو جاتا ہے۔گزشتہ 30 برس سے میری بڑی خواہش ہے کہ میں لندن سے سڑک کے ذریعے پاکستان تک کا سفر کروں لیکن اس کے لئے باہمت، ہم مزاج دوستوں کا ہمسفرہوناضروری ہے۔ میرے کئی دوست اس ایڈونچر اور تجربے سے گزرچکے ہیں مگر اب ان میں پھر سے برطانیہ سے پاکستان تک بذریعہ سڑک سفرکی ہمت نہیں شاید لوگ اب آرام دہ سفر کی سہولتوں کے باوجود راہ میں حائل امیگریشن اور دیگر صعوبتوں اور مسائل کا سامنا کرنے سے ڈرتے ہیں۔سیاحت کے حوالے سے مجھے ایک پاکستانی دوست نے بتایا کہ وہ ایک بار سکاٹ لینڈ کے شہر ایبرڈین گئے تو وہاں اُن کی کچھ سکاٹش لوگوں سے ملاقات ہوئی۔ اُن میں سے ایک صاحب کہنے لگے کہ دنیا بھر سے لوگ فطری حسن اور قدرتی مناظر کو دیکھنے کے لئے سکاٹ لینڈ آتے ہیں جس پر میرے اس پاکستانی دوست نے انہیں پاکستان کے شمالی علاقہ جات اور بلوچستان کے ساحلوں کی کچھ تصاویر اور ویڈیو دکھائیں جنہیں دیکھ کر یہ گورے ورطہئ حیرت میں پڑ گئے اور میرے دوست سے پوچھنے لگے کہ حکومت پاکستان اپنے ملک کے اِن حصوں میں سیاحت کو فروغ دینے کے لئے کوئی حکمت عملی کیوں نہیں بناتی؟ میرے اس پاکستانی دوست نے اس سوال پر ایک ٹھنڈی آہ بھری اور خاموخاموش ہو گیا۔

٭٭٭