ہمارے پیارے وطن پاکستان کو اللہ پاک نے ہر اس نعمت سے نوازا ہے جو دنیا کے کئی ممالک کو میسر نہیں ہے۔ یہاں چاروں موسم ہیں۔ بہترین محل و وقوع، معدنی ذخائر، سمندر، میدانی اور پہاڑی علاقے سرد ترین اور گرم ترین علاقے ہیں۔ اس کے علاوہ دنیا کا بہترین آب پاشی کا نظام بھی پاکستان کے پاس ہے ہر فصل موجود ہے کون سی فصل ہے جو میرے وطن کے سینے پر آویزاں نہیں ہے۔
مگر ان سب وسائل کے باوجود ہمارا پیارا وطن اس قدر مسائل میں کیوں گرفتار ہے؟ کیوں اس کی برآمدات کم اور درآمدات زیادہ ہیں؟ کیوں ہمارے میزائل دوسرے براعظم تک تو جا سکتے ہیں مگر حاملہ خواتین اسپتال نہیں پہنچ پاتیں؟ کیوں ہمارے ملک میں بہترین دھوپ اور بہترین ہوا ہونے کے باوجود سولر سسٹم اور ونڈ ٹربائن سسٹم پر انحصار کرکے ملک کو اندھیروں سے بچایا نہیں جا سکتا؟ کیوں ہمارے قریب ترین دوست ہمارے دشمن بنتے جا رہے ہیں؟ کیوں ہم دنیا میں تنہا ہوتے جا رہے ہیں؟ یہ سب وہ سوالات ہیں جن کا صرف ایک جواب ہے۔ قیادت کا فقدان۔۔۔ جی ہاں۔۔۔ اچھی اور سمجھدار قیادت اپنی قوم کو مسائل سے نکالتی ہے اور نااہل قیادت اپنی قوم کو مسائل میں گرفتار کرتی ہے۔ رہنما موسٰی ہو تو دریا بھی راستہ دیا کرتا ہے۔ رہنما فرعون ہو تو قوم غرقاب ہوتی ہے۔ مولانا رومی نے اسی لئے تو کہا تھا کہ ایک ہزار قابل افراد کے مرنے سے اتنا نقصان نہیں ہوتا جتنا ایک احمق کے صاحب اختیار ہونے سے ۔ یاد رکھئے کتوں کی قیادت شیر کے ہاتھ میں ہو تو کتے بھی شیر کی طرح لڑتے ہیں اور شیروں کی قیادت اگر کتے کے ہاتھ ہو تو شیر بھی کتے بن جایا کرتے ہیں۔
یہ بات تو عیاں ہوگئی کہ ہماری قیادت میں مسائل کے حل کی اہلیت نہیں ہے اگر ہوتی تو آج یہ مسائل نہ ہوتے۔ اب اس کی وجہ بھی جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ ہمارے نصیب میں ہی ایسے لوگ کیوں آئے جن کی ترجیحات اسپتال کے بجائے سڑک، روزگار کے بجائے بھیک، صاف پانی کے بجائے سیلاب ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ ہمارا انتخابی نظام ہے۔ جس میں اکثریت کا فیصلہ حتمی مانا جاتا ہے چاہے وہ اکثریت غلط ہی کیوں نہ ہو۔ تو کیا ہم زندگی کے ہر شعبے میں ایسا ہی کرنا شروع کردیں کہ غلط اکثریت کو صحیح اقلیت پر فوقیت دینا شروع کردیں۔ ہمارے ملک کی اکثریت ان پڑھ لوگوں پر مشتمل ہے جو شعور نہیں رکھتے۔ جنہیں نہ کسی سیاسی لیڈر کی پروفائل کا پتہ ہے نہ اس کے کارناموں کا۔ وہ بس پارٹی کے جھنڈے کو جانتے ہیں ان کی من پسند پارٹی سے کوئی گدھا بھی الیکشن میں کھڑا ہوجائے تو یہ اسے بھی منتخب کرلیں گے۔ (خیر اب بھی کوئی مختلف تو نہیں کرتے)۔
یہ ان پڑھ بے شعور لوگ جو ملک کی اکثریت ہیں وہ ان سیاسی قائدین کی وہ سواری ہے جس پر سوار یہ لوگ ایوانوں تک پہنچتے ہیں۔ اسی لئے آج تک ان سیاسی جماعتوں نے اس ان پڑھ اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ یہاں میں ایک مثال دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ ہمارا روزمرہ کا مشاہدہ ہے کہ کسی بھی دفتر یا ادارے میں مختلف تعلیمی قابلیت کے حامل افراد موجود ہوتے ہیں۔ زیادہ سے زیادہ بھی اور کم سے کم بھی۔ جو زیادہ تعلیم یافتہ زیادہ تجربہ کار ہوتے ہیں وہ دفتر یا ادارے کی سربراہی کرتے ہیں۔ قوانین بناتے ہیں۔ کام کرنے والے لوگوں کا انتخاب کرتے ہیں۔ اور باقی کے کم تعلیمی یافتہ افراد اگر چہ وہ اکثریت میں ہوتے ہیں مگر پھر بھی ان قوانین کی پیروی کرتے ہیں۔ اب جو ملک میں رائج طریقہ ہے یعنی کم تعلیمی یافتہ یا بالکل ان پڑھ افراد کی اکثریت کا انتخاب کا طریقہ کار کسی دفتر یا ادارے میں رائج کردیا جائے تو سوچیں کیا ہوگا؟ کیا وہ دفتر یا ادارہ اپنا کام صحیح انجام دے سکے گا؟ تو یہ کیسے ممکن ہے کہ جو طریقہ کار کسی چھوٹے سے دفتر یا ادارہ کو چلانے میں ناکام ہو وہ طریقہ کسی ملک کو چلانے میں کارگر ہوجائے۔
یہ ہی وہ نکتہ ہے کہ جس سے ہم ایک نیا موڑ حاصل کر سکتے ہیں۔ ہم نے ووٹ ڈالنے کی عمر تو کم سے کم ۱۸ سال مقرر کردی اگر اس کے ساتھ ساتھ تعلیمی قابلیت کم سے کم بی۔اے کردی جائے تو ووٹ ڈالنے والا فرد سیاسی امیدوار کی پروفائل کو سامنے رکھ کر ہی فیصلہ کرے گا۔ جو کسی لالچ یا خوف کی بناء پر نہیں بلکہ اس کے شعورکے مطابق ہوگا۔ ہمارے ملک کی اکثریت دیہات میں رہتی ہے وہاں تعلیم کی کمی کے ساتھ وڈیروں ، جاگیرداروں کا خوف بھی ہوتا ہے جس کی بناء پر ان سے ووٹ لے لیا جاتا ہے۔ تعلیم یافتہ شخص بے خوف ہوتا ہے وہ اپنے شعور کے مطابق فیصلہ کرنا چاہتا ہے۔
اور اس کے ساتھ جو امیدوار الیکشن میں کھڑا ہو رہا ہے اس پہ لازم کردیا جائے کہ اسے قانون یا کسی بھی مضمون کی ماہرانہ ڈگری کا حامل ہونا ضروری ہے کیونکہ پارلیمنٹ کا مقصد قانون بنانا ہے اگر پارلیمنٹ کے اراکین ہی قانون سے ناآشنا ہوں گے تو کیسے قانون بنا سکتے ہیں؟ اور ہر پارٹی پہ لازمی کردیا جائے کہ وہ انتخابات کے دوران اپنا نمائندہ نامزد کرتے وقت اس بات کا خاص خیال رکھے کہ ڈاکٹر، انجینئیرز، وکیل، معیشت دان، محقق، ادیب، دانشور، علماء حضرات کو کثیر تعداد میں شامل کیا جائے تاکہ بوقت حکمرانی ان افراد کی صلاحیتوں سے استفادہ حاصل کیا جا سکے۔
وزراء کو محکمے ان کی تعلیمی قابلیت کے مطابق دئیے جائیں ۔ تو وہ دن دور نہیں کہ جب ہم بھی اپنے مسائل پر قابو پالیں گے۔ ہم بھی ایک ترقی یافتہ ملک کہلائیں گے۔ تعلیم اور تعلیم یافتہ افراد کو اہمیت دئیے بغیر ترقی کا خواب کبھی پورا نہیں ہو سکتا۔ مجھے یقین ہے کہ جس طرح معزز عدلیہ نے آج انصاف کا بول بالا کیا ہے اور پاکستان کے کرپٹ عناصر کو بے نقاب کیا ہے آگے بھی اسی طرح ہوگا۔ اس آرٹیکل کے ذریعے میری یہ استدعا ہے کہ اس ملک نے افراد کی مرضیوں کی خاطر بہت تبدیلیاں ہوتی دیکھی ہیں۔ اگر معزز عدالت ایسا کوئی لائحہ عمل دے دے کہ جس کی بنیاد پر یہ نظام یا اس سے بہتر نظام تشکیل دیا جاسکے تو آنے والی تمام نسلیں عدالت عظمیٰ کی ممنون و مقروض ہوں گی۔ مجھے اب انتظار ہے کہ کب یہ خواب شرمندہ تعبیر ہوگا۔
p.p1 {margin: 0.0px 0.0px 0.0px 0.0px; text-align: right; font: 12.0px ‘.Geeza Pro Interface’; color: #454545}
span.s1 {font: 12.0px ‘Helvetica Neue’}
تعارف: سید علی اکبر عابدی، حیدرآباد پاکستان سے تعلق رکھتے ہیں اور سندھ بورڈ آف ریونیو میں اپنے فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔