میں جب وہاں پہنچا تو اُن کے سامنے لندن کے اردو شعرء ااور برطانیہ کے اردو شاعروں کے بارے میں شائع ہونے والی دو کتابیں رکھی ہوئی تھیں۔وہ اِن کتابوں کے معیار اور اُن میں شامل شعرائے کرام کے بارے میں ایک نوجوان شاعر سے بحث مباحثے میں مصروف تھے۔ مجھے دیکھتے ہی اُن کی گفتگو میں مزید جوش و خروش آ گیا۔ میرے یہ بزرگ دوست اردو شاعری کے بہت دلدادہ اور اعلیٰ درجے کے سخن فہم ہیں۔ دس بارہ برس پہلے اُنہوں نے مجھے تجویز دی تھی کہ میں برطانیہ کے 10نمائندہ اردو شاعروں کے مفصل انٹرویوز، حالاتِ زندگی اور منتخب کلام پر مشتمل ایک کتاب ترتیب دوں تو میں نے انہیں بتایا کہ یہ کام پہلے بھی ہو چکا ہے جس کے جواب میں انہوں نے کہا کہ میں درجنوں شاعروں کے کلام کو محض یکجا کرنے کو مستحسن نہیں سمجھتا بلکہ اس سلسلے میں صرف 10نمائندہ اور عمدہ شاعروں کا انتخاب ہونا چاہئے۔ میں نے استفسار کیا کہ آپ کے خیال میں برطانیہ میں اردو کے دس عمدہ اور نمائندہ شاعر کون سے ہیں؟ (ساقی فاروقی اُن دِنوں حیات تھے)، ساقی فاروقی، باصر کاظمی، صابر رضا اور اقبال نوید کا نام لینے کے بعد وہ کچھ سوچنے اور پھر خود ہی کہنے لگے کہ کتابیں تو برطانیہ میں مقیم اردو کے شاعروں کی بہت چھپ چکی ہیں لیکن اچھی شاعری کی کسوٹی پر پورا اترنے والا کلام صرف چند ایک کا ہی ہے۔ میں نے پوچھا کہ آپ کے نزدیک بیرونی دنیا میں ہونے والی اچھی شاعری کی کسوٹی کیا ہے؟ تو اُنہوں نے جواباً مجھے ڈاکٹر صباحت عاصم واسطی کے چند اشعار سناتے ہوئے کہا کہ اچھی شاعری دِل میں اتر جاتی اور حافظے میں رہ جاتی ہے۔ بہرحال برطانیہ یا لندن کے وہ 10نمائندہ اور عمدہ شاعر کون سے ہیں جن کی شاعری دِل میں اُتر جاتی یا اُن کے اشعار حافظے میں رہ جاتے ہیں؟ یہ ایک الگ بحث ہے۔ جہاں تک شعری مجموعوں کی اشاعت کی بات ہے تو پہلے وقتوں میں شاعر حضرات بلکہ اعلیٰ پائے کے شعرء ا مدتوں کی ریاضت اور مشقِ سخن کے بعد اپنا مجموعہ کلام چھپوانے پر آمادہ ہوتے تھے مگر اب تو شعراء کی اکثریت کو اپنی کتاب چھپوانے کی اتنی عجلت ہوتی ہے کہ وہ اپنا مجموعہ پہلے شائع کروا لیتے ہیں اور شعر کہنے کے بنیادی تقاضوں پر بعد میں غور کرنا شروع کرتے ہیں۔شہزاد احمد نے شاید ایسے ہی شاعروں کے بارے میں کہا تھا:
؎ شاعری اس کے سوا کیا ہے کہ اس دنیا میں
آپ بھی خوار ہوئے تیری بھی رسوائی کی
شعری مجموعوں کی اشاعت کی بہتات نے باذوق اور سخن فہم قارئین کو شاعری سے بیزار کر دیا ہے۔ ایک وقت تھا کہ جب کسی اچھے شاعر کا مجموعہ کلام چھپتا تھا تو سینئر، جونیئر اور ہم عصر شعراء اس کی شاعری کو توجہ سے پڑھتے اور اپنی ایک رائے قائم کرتے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ 90ء کی دہائی میں ایک بار احمد فراز امریکہ سے واپسی پر دو روز کے لئے میرے ہاں لندن رُکے تو ایسے ایک درجن شعری مجموعے اور کتابیں پڑھے بغیر مجھے عنایت کر گئے جو انہیں امریکہ میں مقیم اردو کے کئی اچھے شاعروں اور ادیبوں نے بصد خلوص و احترام پیش کی تھیں۔ کتابوں سے ایسی بے اعتنائی کے سبب لندن اور برطانیہ کے بہت سے اچھے اہل قلم اپنی تخلیقات کو کتابی شکل دینے سے گریز کرتے ہیں۔ ایسے لکھاریوں میں ایک نام اقبال نوید کا بھی ہے جن سے میں نے کئی بار کہا کہ آپ اتنے عمدہ اور شاندار شاعر ہیں۔ اب تو آپ کا شعری مجموعہ شائع ہو جانا چاہئے مگر وہ ہر بار ٹال گئے۔ میرے علاؤہ بھی کئی اور دوستوں کا اصرار تھا کہ اب آپ کا کلام کتابی شکل میں اردو شاعری کے مداحوں تک پہنچنا چاہئے اور پھر احباب کی پُرزور فرمائش پر اقبال نوید کا پہلا شعری مجموعہ ”بند مٹھی میں سورج“ گذشتہ دنوں منظر عام پر آ گیا۔ اقبال نوید کا آبائی تعلق فیصل آباد سے ہے اور وہ گذشتہ طویل عرصے سے برمنگھم میں مقیم ہیں۔ وہ غزل اور نظم کے ایک اچھے اور منفرد شاعر ہیں۔ اُن کی شاعری کا موضوع اُن کی اپنی ذات کے علاؤہ کل کائنات بھی ہے۔ وہ اپنے گردونواح کے مختلف عوامل کو جس زاویے سے دیکھتے اور اُسے شعر کا روپ دیتے ہیں اس پر اُن کا قاری بے ساختہ داد دیئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ مثلاً اُن کا یہ شعر:
؎ میں رات بھر گلی میں تماشا بنی رہی
کھڑکی کھلی تو تازہ ہوا نے دہائی دی
”بند مٹھی میں سورج“ کی پہلی نظم کچھ اس طرح ہے:
پرندے چہچہاتے ہیں
اندھیری رات کی تہ سے سویرا جگمگاتا ہے
ابھی کرنوں کا جھرمٹ
دھیرے دھیرے نام و در اور کھڑکیوں سے جھانک کر
اپنی سحر انگیز آنکھوں سے، مصور کی طرح تصویر کھینچے گا
تمہیں بیدار کر دے گا
اٹھو تم بھی پرندوں کی طرح سے چہچہاؤ
اور اس کی حمد میں مشغول ہو جاؤ
جس روز مجھے اقبال نوید کا شعری مجموعہ ڈاک سے موصول ہوا اس سے اگلے روز پاکستان کی ایک یونیورسٹی کے پروفیسر کا فون آیا۔ اُن کا اصرار تھا کہ میں اپنی مطبوعات انہیں ارسال کروں تاکہ وہ ایم اے اردو کے ایک طالبعلم سے میری شاعری پر مقالہ لکھوا سکیں۔ میں نے اُن سے کہا کہ میں اس قابل نہیں ہوں کہ مجھ پر یا میری شاعری پر کوئی تحقیقی مقالہ لکھا جائے۔ برطانیہ میں رضا علی عابدی، باصر کاظمی، صفدر ہمدانی اور یعقوب نظامی وغیرہ کے علاؤہ ساقی فاروقی، آصف جیلانی، محمود ہاشمی، راشد اشرف، قیصر تمکین اور مقصود الٰہی شیخ جیسے لوگوں پر تحقیقی مقالے لکھے جانے چاہئیں۔پھر میں نے اقبال نوید کے شعری مجموعے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ”بند مٹھی میں سورج“ ایسی کتاب ہے جس پر ضرور کچھ لکھا جانا چاہئے۔ جس طرح آج کل پاکستان کے بڑے بڑے پراپرٹی ڈویلپرز وطن عزیز میں کاغذی ہاؤسنگ سکیمز بنا کر اوورسیز پاکستانیوں کو ٹارگٹ کرتے ہیں کہ وہ اِن شاندار ہاؤسنگ سوسائیٹیز میں پلاٹ یا مکان خریدیں۔ اسی طرح پاکستان کی بہت سی سرکاری اور غیر سرکاری یونیورسٹیز کے اساتذہ اور پروفیسرز اردو کے اوورسیز ادیبوں اور شاعروں کو ٹارگٹ کرتے ہیں کہ اُن پر ایم اے اردو کے طلباء وطالبات سے تحقیقی مقالات لکھوائے جائیں اور پھر جس کے عوض وہ ان اوورسیز اہل قلم سے اپنی فرمائشوں کی تکمیل کروا سکیں یا بیرون ملک دورے کی سپانسرشپ(بشمول قیام و طعام) کی سہولت حاصل کر سکیں۔ اقبال نوید جیسے بے نیاز شاعروں کو نہ تو کسی سے اپنی کتاب پر تحقیقی مقالہ لکھوانے کی ضرورت ہوتی ہے اور نہ ہی وہ کسی عالمی مشاعرے یا کانفرنس میں شرکت کو اپنے لئے اعزاز سمجھتے ہیں۔ اُن کے نزدیک صرف اچھی شاعری کی تخلیق ہی سب سے بڑا سرمایہ ہوتی ہے۔ اقبال نوید کا پہلا شعری مجموعہ برطانیہ میں اردو شاعری کے باب میں ایک گراں قدر اضافہ ہے۔ لیجئے آپ بھی ان کے ایسے منتخب اشعار سے لطف اندوز ہوں جو مجھے بھی پسند ہیں۔
اگرچہ پار کاغذ کی کبھی کشتی نہیں جاتی
مگر اپنی یہ مجبوری کہ خوش فہمی نہیں جاتی
خدا جانے گریباں کس کے ہیں اور ہاتھ کس کے ہیں
اندھیرے میں کسی کی شکل پہچانی نہیں جاتی
وہی رستے وہی رونق وہی ہیں عام سے چہرے
نوید آنکھوں کی لیکن پھر بھی حیرانی نہیں جاتی
……
میں اس کے پھول پھل سے بہت کھیلتا رہا
لیکن وہ مہربان شجر چپ کھڑا رہا
کچھ لوگ خشکیوں پہ تھے پانی کے منتظر
اور کوئی پانیوں میں زمیں ڈھونڈتا رہا
……
میں محبت کے کئی پھول کھِلا سکتا تھا
مجھ کو ماحول ملا لڑنے جھگڑنے والا
……
مرے نصیب کا روشن ستارہ ملنے تک
یہ ناؤ ڈوب نہ جائے کنارہ ملنے تک
میں اپنے آپ کبھی فیصلہ نہیں کرتا
تمہاری سمت سے کوئی اشارہ ملنے تک
بھٹک رہی ہے بیابان جنگلوں میں غزل
نیا خیال نیا استعارہ ملنے تک
……
خواہشوں کے پیڑ سے گرتے ہوئے پتے نہ چُن
زندگی کے صحن میں امید کا پودا لگا
……
زندگی کے قفس میں روز و شب
پھڑپھڑاتے ہوئے گزار دیئے
کوئی آہٹ ہو لو تھرکتی ہے
کرتے رہتے ہیں انتظار دیئے
……
میرے حصے میں کچھ نہیں آیا
بس مرے دستخط ضروری تھے
……
اپنے آپ سے مجھ کو فاصلے پہ رہنے دے
روشنی کی شدت میں کچھ نظر نہیں آتا
……
کوئی بھی چارہ نہیں تھا آگے بڑھنے کے سوا
جب بھی مڑ کر دیکھتے تھے راستہ کوئی نہ تھا
……
وہ بہت حیران ہے مجھ سے تعلق توڑ کر
کس طرح زندہ ہوں میں آب و ہوا کے بعد بھی
اقبال نویدکے شعری مجموعے میں غزلوں کے عمدہ اشعارکے علاوہ بہت سی شاندار نظمیں بھی اس کتاب کے لطف اور اہمیت میں اضافہ کرتی ہیں۔ میں دعا گو ہوں کہ خالق کائنات اقبال نوید کو مزید اچھی شاعری کرنے کی توفیق جاری رکھے۔ اقبال نوید کو ایک یہ سہولت بھی میسر ہے کہ اُن کے احباب نے برمنگھم پوئٹس کے نام سے ایک ادبی حلقہ بنا رکھا ہے جس میں بہت سے اچھے شاعر مل بیٹھتے ہیں، تبادلہ خیال کرتے ہیں، ادبی موضوعات پر گفتگو ہوتی ہے۔ اچھی شاعری کی تحریک ایسے ہی ماحول کی متقاضی ہوتی ہے۔
٭٭٭