اللہ اللہ کرکے پانامہ کا ہنگامہ کسی حد تک ایک طرف ہوا۔ ملک کے منتخب وزیر اعظم نا اہل ثابت ہوگئے اس بحث سے ہٹ کر کہ اور کتنے اہل ہیں جو ابھی تک ایوانوں میں موجود ہیں۔ ہر وقت میڈیا پر یہی ذکر ہے کبھی مسلم لیگ ن والوں کے بیانات اور کھبی اپوزیشن والوں کے بیانات سن سن کر کان پک گئے۔ اپوزیشن والے ہر ممکن کوشش میں ہیں کہ پوری مسلم لیگ ن کو کرپٹ ثابت کردیں پوری کو نہ سہی تو کم سے کم نواز شریف کے رشتہ داروں اور درباری وزیروں کو نا اہل اور کرپٹ ثابت کرنا بے حد ضروری ہے۔ جب کہ ہمیشہ کی طرح مسلم لیگ ن والوں کو اس عمل سے بھی سازش کی بو محسوس ہو رہی ہے۔
اب ذرا اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ کیا واقعی ہر حکومت کے جانے میں کوئی سازش ہی کار فرما ہوتی ہے یا نہیں؟ کیا واقعی ہر منتخب حکومت کا کوئی پوشیدہ دشمن ہوتا ہے؟
مسلم لیگ ن والے ہر پریس کانفرنس میں ایک ہی راگ الاپتے نظر آتے ہیں کہ ہمارے ساتھ نا انصافی ہوئی ہے آئین اور قانون کے تقاضے پورے نہیں ہوئے۔ ہمارے ساتھ ظلم ہوا ہے وغیرہ وغیرہ۔ کوئی ان سے یہ پوچھے کہ ملک کے عوام کے ساتھ جو کچھ انہوں نے کیا وہ کیا انصاف تھا؟ لوگ بھوک اور افلاس سے خودکشیاں کر رہے تھے اور حکومت قرضہ پر قرضہ لے کر میگا پروجیکٹ میں جھونک رہی تھی۔ خودکش بم دھماکوں میں لوگ مر رہے تھے اور وزیر اعظم سیر سپاٹوں میں مشغول تھے۔ جس وقت مریض ہستالوں کے فرش پر بیڈ اور دوا نہ ملنے کے باعث مر رہے تھے اس وقت وزیر اعظم کے باتھ روم کی تزئین و آرائش پر کروڑوں خرج کئے جارہے تھے۔ جتنا خرجہ میٹرو اور اوررنج لائن پر کیا گیا اس سے نہ صرف پنجاب بھر کے تمام ہسپتالوں میں سہولیات مہیا کی جاسکتی تھیں بلکہ مزید کئی جدید ہسپتال بنائے جا سکتے تھے۔ جس وقت ریلوے کے وزیر اپنی وزارت کے کام چھوڑ کر اپنے بادشاہ سلامت کی پیروی میں لگے ہوتے تھے نہ جانے کتنے لوگ ریلوے حادثات میں اللہ کو پیارے ہوجاتے تھے اور موصوف کے کان پر نہ تب کوئی جوں رینگتی پائی گئی نہ اب کوئی شرمندگی نظر آتی ہے۔ جب آپ کا وزیر خزانہ جس پر منی لانڈرنگ کا کیس بھی ہو ملکی اثاثوں کو گروی رکھ کر قرضہ پر قرضہ لے رہا ہو اور اس قرضہ کا کوئی حساب بھی نہ دیا جاتا ہو ایسے میں کوئی بیرونی سازش کی ضرورت باقی رہتی ہے کیا؟
جب آپ ماڈل ٹائون کے بے گناہ مارے جانے والوں کی رپورٹ دبا کر بیٹھ جائیں اور ذمہ داروں کو کوئی سزا نہ ہوسکے۔ جب آپ کے آفس سے فوج مخالف رپورٹ تیار کر کے اخبار میں چھپوادی جائے اور اس کے بھی ذمہ داروں کو تحفظ فراہم کیا جائے۔ جب اسٹیل کے کام کا وسیع تجربہ رکھنے کے باوجود آپ ملک کی اسٹیل مل کو خسارے سے نہ نکال سکیں۔ جب آپ کے ایک سابقہ وفاقی وزیر اور موجودہ وزیراعظم کی ائیر لائن تو خوب منافع میں جب کہ پاکستان کی ائیر لائن خسارے میں جارہی ہو۔ جب لوگ پینے کا پانی بھی خرید کر پینے پر مجبور ہوں اور واٹر سپلائی کی لائنوں میں گٹر کے پانی کی آمیزش ہو مگر اس کو ٹھیک کرنے والا کوئی نہ ہو تو پھر سازش کو باہر ڈھونڈنا کسی دیوانے پن سے کم ہے کیا؟
یہاں یہ سوال بھی ذہنوں میں ضرور پیدا ہوگا کہ مندرجہ بالا تمام مسائل تو فوجی حکومتوں میں بھی موجود تھے جب انہوں نے ان کے حل کے لئے کچھ نہیں کیا تو پھر سیاسی حکومت سے سوال کیوں؟ تو جناب وجہ اس کی صرف اتنی ہے کہ فوجی حکومتیں عوام کے ووٹ سے یا عوام کو سنہری خواب دکھا کر اقتدار میں نہیں آتیں۔ وہ عوام سے آپ کی طرح کوئی وعدہ نہیں کرتیں۔ اس لئے ان سب کی جواب دہ وہ آپ کی طرح نہیں ہو سکتیں آپ اس وعدہ کے جواب دہ ہیں جو آپ معصوم عوام سے کرتے ہیں مگر اقتدار میں آکر انہیں یکسر فراموش کردیتے ہیں۔ آپ اگر آمریت سے اتنے خائف ہیں تو گڈ گورننس کی ایک ایسی مثال کیوں قائم نہیں کردیتے کہ جب کوئی آپ کو ہٹانے کی کوشش بھی کرے تو عوام اس کے راستے کی دیوار بن جائیں۔ آپ کو طیب اردگان جیسی حکومت درکار ہے تو جناب اس جیسی گڈ گورننس بھی لانی ہوگی۔ ورنہ اپنے خلاف آپ سے بڑا کوئی سازشی نہیں۔
p.p1 {margin: 0.0px 0.0px 0.0px 0.0px; text-align: right; font: 12.0px ‘.Geeza Pro Interface’; color: #454545}
span.s1 {font: 12.0px ‘Helvetica Neue’}
تعارف: سید علی اکبر عابدی، حیدرآباد پاکستان سے تعلق رکھتے ہیں اور سندھ بورڈ آف ریونیو میں اپنے فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔