350

پاور بروکرز کا آسان حل

بہاولپُور، ہزارہ، جنوبی پنجاب یا کراچی صُوبے جیسی تحریکیں کامیاب ہو بھی جائیں تو بھی ان علاقوں کی ترقی ایک سراب ہی رہے گی۔ ہماری اگلی نسل کو تھک ہار کر باالآخر ہر ڈویژین کو صُوبہ بنانا ہوگا۔

وفاق کی مضبُوطی اور پس ماندہ علاقوں سمیت غریب سے غریب تر ہوتی کمیُونیٹیز تک ریاستی وسائل کی ترسیل کا اِس سے زیادہ قابلِ عمل کوئی طریقہ نہیں کہ چاروں صُوبوں کو چھوٹے چھوٹے درجنوں صُوبوں میں تقسیم کر دیا جائے۔

اس عمل سے انتخابی حلقے چھوٹے ہو جانے کے باعث روائیتی سیاسی اشرافیہ اور بڑے پاور بروکرز سمیت لسانی تعصُب پر سیاسی عمارتیں کھڑے کرنے والے طبقات کی بھی حوصلہ شِکنی ہوگی

اور ہر علاقے کے مُتوسط افراد سمیت ہر کمیُونٹی کو سیاسی نُمائندگی بھی ملے گی۔

عمران خان صاحب سمیت چند دیگر افراد ایک زمانے میں ہر ڈویژین کو صُوبہ بنانے کی بات زوروشور سے کیا کرتے تھے پھر یہ معاملہ سیاسی مصلحتوں کی نظر ہو گیا۔

ہر ڈویژین کو صُوبہ بنانا دفاعی پہلُو سے بھی بہت اہم ہے۔

چھوٹے چھوٹے درجنوں صُوبے جہاں وفاقی پارٹیز کو جنم دیں گے وہیں علیحدگی پسندوں کی طاقت بھی تقسیم ہوگی۔

ہر ڈویژین صوبہ بنتے ہی زرداری اور شریف برادران جیسے لیوی ایتھن سیاستدان اور انکے بیج اپنی موت آپ مر جائیں گے۔

صُوبوں کی تعداد زیادہ بڑھنے سے بہرحال ایسٹیبلشمنٹ کی حکُومت سازی میں اہمیت ایک آدھ دہائی کے لیے بڑھ جائے گی لیکن ایک دہائی میں نئی پارٹیز اور نت نئے سیاسی الحاق بننے سے لوگوں کی سیاسی تربیت کی رفتار بڑھے گی اور باالآخر قومی پارٹیز بننے کا عمل شروع ہوگا۔

مجھے لگتا ہے ہر ڈویژین کو صوبہ بنانے کا کام اگلے مارشل لا دور میں کوئی آمر ہی کرے گا سیاستدانوں سے اس کارِ خیر کی امید نہیں رکھی جاسکتی۔

ڈاکٹر جاسم ارشاد چٹھہ

اپنا تبصرہ بھیجیں