315

سٹاک ہوم سٹڈی سرکل کی 107 ماہانہ نشست۔ Stockholm Study circle 107

سٹاک ہوم سٹڈی سرکل کی ماہانہ علمی اور دینی نشست عارف کسانہ صاحب کی میزبانی میں گزشتہ دس سال سے سٹاک ہوم میں منعقد ہو رہی ہے۔ برصغیر سے تعلق رکھنے والی سویڈن میں مقیم علمی اور ادبی شخصیات اس نشست میں باقاعدگی سے شرکت کرتی ہیں۔ الحمداللہ ابتک سٹڈی سرکل کی 106 نشستیں کامیابی سے منعقد ہو چکی ہیں اور حالیہ 107 نشست گزشتہ روز منعقد کی گئی جسمیں قرآن پاک کی سورۂ مدثر کی آیات 31 تا 35 کی تلاوت، ترجمہ اور تفسیر بیان کی گئی۔

اس نشست کی خاص بات علامہ اقبال رحمتہ اللہ کے یوم وفات کے حوالے سے جواہر لعل نہرو یونیورسٹی دہلی کے شعبہ اردو کے پروفیسر جناب ڈاکٹر اکرام خواجہ صاحب کا سکائپ پر لائیو خطاب تھا جسے حاضرین محفل کے علاوہ دنیا کے بیشتر حصوں میں فیس بک لائیو پر دیکھا اور سنا گیا۔ پروفیسر صاحب نے اقبال کو شاعر مشرق کہنے کی بجائے تمام نسل انسانی کا شاعر قرار دیا کیونکہ اقبال کی شاعری میں بنی نوح انسان کی عظمت بیان کی گئی ہے۔ اور انہوں نے اسلام کا آفاقی پیغام صرف مسلمانوں کے لئے نہیں دیا بلکہ ساری دنیا کے انسانوں کیلئے دیا ہے۔ اقبال نے اپنی شاعری میں نیکی اور بدی کا کردار علامتی طور پر بیان کرتے ہوئے ابلیس کو بدی کا نمائندہ قرار دیا ہے اور اپنے اشعار سے یہ سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ ابلیس اپنے کام میں کتنی تندہی سے مگن ہے اور وہ نسل انسانی کی ابتدا سے ہی انسان کو بہکانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا ہے۔ انسان اپنا بچپن کھیلنے میں، جوانی خوابوں میں اور باقی عمر اچانک رشتوں اور فرائض کو نبھانے میں گزار دیتا ہے۔ اور دنیا کے پیچھے بھاگتے بھاگتے آخر میں اس کے ہاتھ نہ دنیا آتی ہے نہ آخرت۔ اقبال اس بات کو اپنے ایک شعر میں یوں بیان کرتے ہیں۔

نہ تو زمیں کے لئے ہے نہ آسمان کے لئے
جہاں ہے تیرے لئے تو نہیں جہاں کے لئے

ایک بڑا شاعر براہ راست بات نہیں کرتا بلکہ اشاروں کنایوں میں بات کرتا ہے تاکہ پیغام بھی پہنچ جائے اور پڑھنے والا انسان ناراض بھی نہ ہو۔ اقبال نے ہمیشہ انسانیت کی بھلائی کے لئے لکھا ہے۔ جب اللہ نے انسان کو بہترین سانچے میں ڈھالا ہے تو اسے اپنے آپ کو بہترین بن کر دکھانا چاہئیے۔ اقبال اپنی شاعری میں کوئی نیا فتوی نہیں دیتے بلکہ وہ قرآن، انبیا اور اللہ کے نیک لوگوں کے ارشادات کو اپنی شاعری کے ذریعے بیان کرتے ہیں۔ وہ اپنے ایک ایک شعر میں پوری کی پوری تاریخ لا کر رکھ دیتے ہیں۔

ستارہ کیا مری تقدیر کی خبر دے گا
وہ خود فراخی افلاک میں ہے خوار و زبوں

اقبال کی شاعری میں سب سے پہلے انسان کو شاعرانہ خوبیاں اپنی طرف راغب کرتیں ہیں اور بعد میں انسان جتنا غور کرتا ہےاسے اقبال کی شاعری میں اتنی ہی فکری اور علمی باتیں سمجھ آتی جاتی ہیں۔ ہمیں یوم اقبال کو یادگار بنانے کے لئے اقبال کا پیغام عام کرنا چائیے جو تمام انسانیت کے لئے مشعل راہ ہے۔ آخر میں حاضرین محفل نے اقبال کی فکر اور خودی کے متعلق پروفیسر صاحب سے سوالات کیے اور نشست کے آخر میں ناروے میں پاکستانی ادیب شیخ احسان صاحب کی ناگہانی وفات, سویڈن میں سفیر پاکستان جناب طارق ضمیر صاحب کے چچا جان کی وفات اور عارف کسانہ صاحب کی والدہ کی برسی پر دعائے مفغرت کی گئی۔ حاضرین محفل کے لئے چائے اور دیگر لوازمات کا حسب معمول اہتمام کیا گیا تھا اور سب احباب نے اس نشست کو علم و فکر کے لحاظ سے بہت مفید قرار دیا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں