454

سرزمینِ بنی اسرائیل کی سیر (حصہ اوّل)

 

اسرائیل کی سیر کرنے کا پروگرام کافی عرصے سے بن رہا تھا، اسکی بڑی وجہ قبلہ اوّل القدس شریف، حضرت سلیمان علیہ اسلام کا مقبرہ، حضرت موسیٰ علیہ اسلام کی آخری آرام گاہ، حضرت عیسیٰ علیہ اسلام کی پیدائش کی جگہ، بحیرۂ مردار کے ساتھ ساتھ ایسی بیشمار جگہیں تھیں جو مذاہب سے جڑی ہوئی اور عقیدت سے بھرپور ہیں۔

آجکل یورپ میں اسرائیل اپنا ٹورازم بڑھانے کیلئے بہت زیادہ ایڈورٹائزمنٹ کر رہا ہے اور بسوں ٹرینوں اور سڑکوں کے کنارےسائین بورڈز پر یہ پیغام لکھا ملتا ہے کہ آپ یروشلم اور تل ایویو کی سیر کو آئیں اور یہاں موجود سنی بیچز اور تاریخی مقامات سے لطف اندوز ہوں۔ سویڈن کے شہر سٹاک ہوم میں میرے آفس کی کھڑکی سے نظر آنے والی ٹرین پر بھی اسرائیل کے دونوں شہروں تل ایویو اور یروشلم کی سیر کے حوالے سے پیغامات درج ہیں، جس پر دن میں کئی دفعہ نظر پڑتی تھی اور یہاں جانے کا جذبہ مزید تازہ ہوجاتا تھا۔

 

مسلمان اور پاکستانی بیک گراؤنڈ ہونے کی وجہ سے کچھ خدشات بھی سر اٹھاتے تھے کہ پتہ نہیں وہاں سیر کو جائیں تو کسی مصیبت میں ہی نہ پھنس جائیں، لیکن اپنے ٹورازم کے شوق اور انبیاء کرام کی سرزمین کی زیارت کرنے کے جذبے کے آگے یہ خدشات دم توڑ گئے اور میں نے سٹاک ہوم میں موجود اپنے ایک پاکستانی دوست حمزہ بھائی کے ہمراہ تل ایویو کی ٹکٹ بک کر لی۔ ہوٹل تل ایویو کی بجائے یروشلم میں ایک ہفتے کیلئے بک کیا کیونکہ زیارات کی زیادہ تر جگہیں پروشلم کی طرف ہی ہیں، جبکہ تل ایویو سمندر کے کنارے بسایا گیا ایک نسبتاً نیا شہر ہے، جہاں ساحل سمندر، بلند وبالا عمارات اور مارکیٹس موجود ہیں۔

 
 

سٹاک ہوم سے اسرائیل فضائی راستے سے جانے کیلئے تقریباً پانچ گھنٹے لگتے ہیں، جہاز تمام یورپ، اور ترکی عبور کر کے اسرائیل میں داخل ہوتا ہے۔ نارویجین ائیرلائنز کی ڈائریکٹ فلائیٹ سٹاک ہوم سے اسرائیل آتی ہے اور اس میں دوران پرواز وائی فائی کی مفت سہولت بھی موجود ہوتی ہے، اسی لئے میں نے اس ائیرلائنز کا انتخاب کیا تھا، اور یہی وجوہات ہیں کہ ماضی میں نیویارک اور دوبئی کا سفر بھی اسی ائیرلائنز پر کر چکا ہوں۔ سویڈش شہری ہونے کے ناطے مختلف ائیرلائینز  ہمیں نہایت سستے داموں بلکہ بعض اوقات بالکل مفت ٹکٹ آفر کرتے رہتے ہیں ، جسکا ہم پاکستان میں رہتے ہوئے تصور بھی نہیں کر سکتے۔

پانچ گھنٹوں کی لمبی فلائیٹ میں کسی قسم کی بوریت محسوس نہیں ہوئی کیونکہ انٹرنیٹ اور فیس بک کی سہولت تو موجود تھی ہی ساتھ ساتھ وٹس ایپ اور میسنجر پر دوست احباب کے فون بھی آ رہے تھے اور میں پینتیس ہزار فٹ کی بلندی پر ایسے فون سن رہا تھا جیسے زمین پر کسی شہر میں ہی بیٹھا ہوا ہوں۔

تل ایویو میں جہاز لینڈ کرتے وقت جہاز کی کھڑکی سے بلندوبالا عمارات اور روشنیاں نظر آئیں، اسرائیلیوں نے اس شہر کو بسانے کیلئے کافی پیسہ اور وقت صرف کیا ہوا ہے اور یہ شہر خوبصورتی، ترقی اور صفائی کے اعتبار سے یورپ کے کسی بھی شہر سے کم نہیں ہے۔ جہاز نے آبادی اور سڑکوں پر بہت نچلی پرواز کرتے ہوئے لینڈ کیا، جس سے ظاہر ہورہا تھا کہ ائیرپورٹ آبادی کے درمیان واقع ہے۔

ائیرپورٹ پر امیگریشن کاؤنٹر کے پاس مسافروں کی لمبی لمبی قطاریں لگی ہوئی تھیں، اسرائیلی شہری آٹومیٹک مشینیوں سے اپنا پاسپورٹ ٹچ کر کے باہر جا رہے تھے، جبکہ باقی دنیا سے آئے مسافر روایتی طریقے سے امیگریشن آفیسرز کے پاس سے گزر رہے تھے، امیگریشن آفیسرز میں زیادہ تر جواں سال خواتین ہی بیٹھی ہوئی تھیں، میں نے اپنی باری آنے پر کیبن میں موجود خوبصورت یہودی خاتون کو ہیلو کہنے کے بعد اپنا پاسپورٹ پکڑایا، جواباً خاتون نے نہایت دلکش مسکراہٹ کے ساتھ ہیلو کہا، جس سے یہ بات پکی ہوگئی کہ محترمہ اسی مسکراہٹ کے ساتھ ہی پاسپورٹ ویزہ کے ساتھ واپس کر دے گی، لیکن میری سوچ کے برعکس محترمہ نے سوال و جواب کا سلسلہ شروع کردیا۔

ضرور پڑھیں:   سعودی سفر (حصہ اول)

آپ اسرائیل پہلی دفعہ آئے ہیں، کیوں آئے ہیں، کہاں ٹھہریں گے وغیرہ وغیرہ عام سوالات ہیں جو دنیا کے ہر ائرپورٹ پر ہوسکتے ہیں، لیکن سوالات میں سسپنس اس وقت پیدا ہوا جب محترمہ نے ان سوالات کے ساتھ ساتھ اچانک یہ پوچھا کہ آپ پیدا کہاں ہوئے تھے؟ یہ سوال میرے لئے نیاء اور اچانک تھا، کیونکہ میرے سویڈش پاسپورٹ پر پیدا ہونے کی جگہ صرف ایک پاکستانی شہر کا نام لکھا تھا، جس سے یہ پتا نہیں چلتا تھا کہ ملک کونسا ہے۔ میں نے مسکراہٹ کے ساتھ جواب میں پاکستان کہہ دیا، پاکستان کا نام سن کر محترمہ کے کان کھڑے ہوگئے، چہرے پر پریشانی آئی، جس سے میرے دماغ میں بھی پراسرار سی گھنٹیاں بجنا شروع ہوگئیں، کچھ خدشات نے سر اٹھانا شروع کر دیا کہ محترمہ کہیں پاکستان کے اسرائیل کو ایک ملک کے طور پر تسلیم نہ کرنے کے فعل کی سزا مجھے ہی نہ دے دے، خیر دل کو یہ کہہ کر مطمئین کردیا کہ کیا کرسکتی ہے زیادہ سے زیادہ ڈپورٹ ہی کر دے گی۔

میں انہی خیالات میں گم تھا کہ اچانک محترمہ نے مجھ سے میرے والد اور دادا کا نام پوچھا، یہ سوالات بھی حیرت سے بھرپور تھے، خیر میں نے اس سے بحث کرنا مناسب نہ سمجھا اور نام بتانے میں ہی عافیت سمجھی۔ خاتون نے کیبن میں موجود دائیں بائیں کھڑکیوں سے اپنی ساتھیوں سے کھسر پھسر کی اور پاسپورٹ اپنے پاس رکھتے ہوئے مجھے پیچھے دفتر کی طرف جانے کا اشارہ کردیا، حالات عجیب صورت اختیار کرتے جارہے تھے، لیکن مجھے اپنے اعصاب پر قابو تھا اور میں ڈپورٹ ہونے کے آخری فیصلے سے ذرا بھی خوفزدہ نہیں تھا بلکہ اس صورتحال کو انجوائے کر رہا تھا۔

اس متعلقہ دفتر میں بھی زیادہ تر خواتین ہی بیٹھی تھیں، لیکن امیگریشن کاؤنٹر کے برعکس یہاں کی خواتین تھوڑی عمر رسیدہ تھیں، تھوڑی دیر میں وہی امیگریشن خاتون نازک اندام قدموں سے چلتے ہوئے کمرے میں تشریف لائیں اور کونے میں موجود ایک بڑی ٹیبل پر میرا ضبط شدہ پاسپورٹ رکھ کر باہر چلی گئیں، ذہن میں آیا کہ پوچھوں محترمہ میرا قصور کیا ہے، لیکن اسی لمحے میں نے سوال پوچھنے کی خواہش ترک کر دی اور اپنے ذہن کو سمجھا دیا کہ یہ یورپ نہیں بلکہ اسرائیل ہے اور یہاں شاید وہ شخصی آزادیاں موجود نہیں ہیں جو یورپ میں یورپین شہریوں کو حاصل ہیں، لحاظہ بقول حمزہ بھائی یہاں سوال کرنے کی بجائے اپنے آپُکو پنجاب کے کسی تھانے میں تھانیدار کے سامنے کھڑا ہوا سمجھو، جہاں سوال کرنے پر چودہ نمبر چھتر کا خطرہ سر پر منڈلا رہا ہوتا ہے۔

تھوڑی دیر بعد ایک خاتون نے مجھے ایک فارم اور پینسل دیتے ہوئے یہ حکم صادر کیا کہ باہر جا کر یہ فارم فل کرو اور یہاں جمع کروا کر باہر ہی بیٹھ جاؤ، ہم بعد میں سوال و جواب کریں گے۔ باہر پہنچنے پر ساتھ آنے والے حمزہ بھائی کے مسکراتے چہرے پر نظر پڑی وہ اسی نازک اندام خاتون سے ویزہ حاصل کر چکے تھے، جس نے میرا پاسپورٹ ضبط کیا تھا، اسکی وجہ شاید یہ تھی کہ حمزہ بھائی عمر میں مجھ سے بڑے  ہیں ، جبکہ میری عمر کم ہونے کے ساتھ ساتھ میرا مسئلہ شاید اردونامہ ویب سائیٹ بھی تھی، کیونکہ پچھلے دوسال سے میں یہ ویب سائیٹ چلا رہا ہوں اور گوگل کے اعدادوشمار کے مطابق چھ ہزار دفعہ یہ ویب سائیٹ اسرائیل میں پڑھی جاچکی ہے، حالانکہ اسرائیل میں بظاہر کوئی اردو سمجھنے والا موجود نہیں ہے۔

فارم میں نام، موبائل نمبر، اور ای میل ایڈریس کے ساتھ ساتھ وہی دو سوالات تھے، والد اور دادا کا نام۔ ۔ ۔ پتا نہیں یہودی ان ناموں سے کیا اخذ کرنا چاہ رہے تھے، خیر میں نے فارم فل کیا اور پنسل سمیت خاتون کی میز پر رکھ کر باہر آ گیا۔ باہر حمزہ بھائی کچھ فاصلے پر بیٹھی خوبصورت جواں سال امیگریشن کی خاتون کی خوبصورتی سے لطف اندوز ہو  رہے تھے، مجھ پر نظر پڑتے ہی فرمانے لگے کہ خدا نے یہودی خواتین کو کتنا خوبصورت بنایا ہے، اس خاتون کی شکل میری کزن سے ملتی ہے۔ میں نے دونوں ہاتھ انکے سامنے جوڑتے ہوئے درخواست کی کہ میرے سر پر ڈپورٹ ہونے کا خطرہ منڈلا رہا ہے اور آپ یہودی خواتین کی خوبصورتی انجوائے کر رہے ہیں اگر یہ خاتون ناراض ہوگئی تو میرے ساتھ ساتھ آپ بھی واپس ہی جائیں گے۔

تھوڑی دیر بعد ایک اور جواں سال خاتون دلکش مسکراہٹ کے ساتھ باہر تشریف لائیں اور میرا نام پکارا، ان سے وہاں کھڑے کھڑے دو چار باتیں ہوئیں، جنکا لب لباب یہ تھا کہ کہاں رہنا ہے، کیا کیا دیکھنا ہے، کیوں آئے ہو وغیرہ وغیرہ۔ خاتون ایسے مسکرا مسکرا کر باتیں کر رہی تھیں، جیسے میری پرانی جاننے والی ہوں، خیر تھوڑی دیر بعد وہ اندر گئیں اور میرے پاسپورٹ کے ساتھ ساتھ ایک تین مہینے کا ویزہ کارڈ میرے حوالے کر کے ہیو اے پلے زنٹ سٹے سر کہہ کر اندر چلی گئیں۔ ڈپورٹ ہونے کا خطرہ ٹل چکا تھا، ہم نے اپنا سامان اٹھایا اور ویزے پر موجود کوڈ کو دروازے سے ٹچ کیا اور باہر نکل گئے۔

 
 ( طارق محمود)

باہر ہوٹل جانے کیلئے انفارمیشن ڈیسک سے معلومات لیں، جس سے پتا چلا کہ ٹرینیں، بسیں اور ٹیکسیاں سب ہی تل ایویو ائیرپورٹ سے یروشلم جاتی ہیں، بس اور ٹرین کی ٹکٹ نسبتاٗ سستی ہے جبکہ ٹیکسی کا کرایہ زیادہ ہے۔ یہاں موجود خاتون بھی بہت ہی مہمان نواز تھی اور ہمیں بہترین طریقے سے گائیڈ کر رہی تھی، حمزہ بھائی نے انکی خوبصورتی اور شخصیت سے متاثر ہو کر انکا نام پوچھا تو محترمہ نے کمال خوش اخلاقی سے اپنا نام Aariala بتایا، میں نے فوراٗ انہیں یاد دلایا کہ آپکا نام انگلش کے مشہور فونٹ Arial سے ملتا ہے بس آگے پیچھے دو اے لگ گئے ہیں، خاتون نے جواباً مسکرا کر کہا کہ یہ ہیبرو یہودی نام ہے۔ اس دوستانہ گپ شپ کے دوران خاتون نے ہمیں شیئرڈ ٹیکسی کے بارے میں بتایا کہ ہمارے لئے شاید یہ زیادہ اچھی ہے کیونکہ اس میں نسبتاٗ کم کرایہ لگتا ہے، لیکن اس میں اور سواریاں بھی بیٹھتی ہیں، یہ آپکو ہوٹل کے دروازے پر جا کر اتارے گی۔ ہم نے اس اچھے مشورے پر انکا شکریہ ادا کیا اور ٹیکسی لیکر ہوٹل کی طرف روانہ ہوگئے۔

(جاری ہے)

(حمزہ ایاز)